مرے وطن کے جواں مرتے رہیں گے کب ؟

0
240
جاوید رانا

میں ایک صحافی ہوں، میں حق اور سچ لکھنے بولنے اور جھوٹ کی نشاندہی کرنے سے کبھی نہیں چُوکتا نہ ہی کسی مصلحت کا شکار ہوتا ہوں، یہاں امریکہ میں رہتے ہوئے مجھے اپنا فرض ادا کرنے میں کبھی یہ خوف نہیں ہوا کہ مجھے کرائے کے قاتلوں سے مروا دیا جائیگا لیکن ارشد شریف کے کینیا میں بیہمانہ قتل کے بعد اب میں اپنا وہ یقین و اعتماد کھوتا ہوا محسوس کر رہا ہوں جو وطن عزیز کے حوالے سے سچ لکھنے، حقیقت بیان کرنے کیلئے میرا اثاثہ و میراث ہے۔ صرف میں ہی نہیں بلکہ ہر سچا اور بیباک صحافتی فرد اسی کیفیت میں مبتلا ہے حکمرانوں، فیصلہ سازوں اور ہرکاروں سے یہ توقع تو کی جا سکتی رہی کہ اپنی حرکات و منفی ہتھکنڈوں کے افشاء ہونے اور میڈیا یا عوام الناس کے احتجاج پر مقدمات، پابندیوں اور ملازمتوں سے محرومی کے وار کرینگے لیکن یہ احساس نہیں تھا کہ قتال کی نوبت بھی آسکتی ہے۔ 49 سالہ ارشد شریف کا جُرم یہی تھا کہ وہ حق اور سچ کہتا تھا، برائیوں کی نشاندہی کرتا تھا اور قومی و عوامی مفادات میں ان بدعنوان و ملک دشمن عناصر کو (خواہ ملکی ہوں یا بین الاقوامی) ننگا کرتا تھا، ثبوت لاتا تھا، حقیقتاً اپنی جان جوکھم میں ڈالتا تھا اس پاداش کی اتنی مہیب و کریہہ سزا کہ اس کی زندگی کا چراغ کینیا کی بدنام زمانہ پولیس کے ہاتھوں بجھا دیا گیا۔ سازشیوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ بھارت کے کمینہ فطرت میزائل حملوں اور غلط دعوئوں کا پردہ چاک کرنیوالا دہشتگردی کیخلاف جنگ میں بھائی کی شہادت پر ثابت قدم رہنے اور عسکری بھائیوں کے ہمراہ شانہ بشانہ نیز اپنی کارکردگی کے عیوض صدارتی ایوارڈ یافتہ ارشد شریف وطن سے کتنا وفادار تھا۔ یو اے ای میں اپنے خلاف موجودہ مقتدرین کی ستم گری، ایف آئی آر و جان کو خدشات کے باعث مقیم ارشد شریف کو وہاں سے بے دخل کئے جانے کے کیا عوامل تھے اور ارشد کینیا کیوں گیا اور ستمبر سے وہاں قیام پذیر کیوں تھا؟ حقائق سامنے آنے ہیں مگر کینیا کے پولیس حکام کے بدلتے ہوئے بیان واضح کر رہے ہیں کہ ارشد شریف کو ٹارگٹ کر کے اور ایجنڈے کے تحت شہید کروایا گیا۔ ارشد کے شہید ہونے کے ثمرات کس کو پہنچنے ہیں ایک بڑا سوال ہے؟ شہید کی ماں اپنے شوہر اور بیٹے کی شہادت کا نذرانہ پہلے ہی دے چُکی تھی، اب اس کا دوسرا بیٹا بھی ملک و قوم کیلئے حق و صداقت کی جنگ لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کر چکا اپنے واحد سہارے سے محروم ہوئیں ماں کی رب کائنات سے فریاد، بیوہ اور پانچ کمسن بچوں کے کفیل کی شہادت پر اس کی کمسن بیٹی کی آہ و بکاء نے یقیناً نہ صرف ہر کسی کے روح و قلب کو دہلا دیا بلکہ ان کی آہیں عرش کو بھی ہلا گئی ہیں۔ میڈیا میں کوئی آنکھ ایسی نہیں جو اشکبار نہ ہو اور کوئی فرد ایسا نہیں ہوگا جو سچائی و حقیقت کے اظہار پر اپنے انجام سے خوفزدہ نہ ہو۔ اس تمام صورتحال میں ایک ہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس عمل کے پس پردہ وہ عناصر ہی ہیں جو ارشد شریف کے نعرۂ حق اور تحقیقاتی کردار کو اپنے بُرے انجام اور بدنامی کی پیش بینی رکھتے تھے اور وہ عناصر حکومتی ہو سکتے ہیں یا ان کے سہولت کار جو وطن عزیز کے موجودہ حالات کو اپنے حق میں برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستان کی سیاست کے حقائق پر ہم اپنے خیالات کا متعدد بار اظہار خیال کرتے رہے ہیں کہ ہماری سیاست کا محور شروع سے ہی انکل سام کی مرضی و منشاء اور ایجنڈے پر ہی رہا ہے۔ اقتدار کا ہما ان سروں پر ہی بیٹھا ہے جو انکل سام کے وفادار رہے یا ہینڈلر رہے ہیں۔ پاکستان کا سیاست و اقتدار یا تو مارشل لاء یا مائونٹڈ فرینڈلی جمہوری سیاست کے پاس ہی رہا ہے اور اگر کسی نے سر اٹھانے کی کوشش کی تو اس کا انجام عبرت ناک حتیٰ کہ دنیا سے مراجعت کی شکل میں ہوا ہے۔ آج کے دور میں گلوبل ولیج اور وائبرنٹ میڈیا خصوصاً ویژول و سوشل میڈیا کے باعث حقیقت نہ چھپائی جا سکتی ہے نہ دبائی جا سکتی ہے۔ ارشد شریف کو شہید کئے جانے کی وجہ جاننے کیلئے تجزیہ کیا جائے تو اس کے ڈانڈے رجیم چینج کے اس وقوعہ سے جا ملتے ہیں جس کے تحت اپریل میں عمران خان کی منتخب حکومت ختم ہوئی۔ اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ 2018ء میں مقتدرین کے ایماء پر خان کو اقتدار میں لایا گیا تھا لیکن جونہی کپتان نے Absolutely Not اور آزاد خارجہ پالیسی کا عندیہ اور قومی ترجیح کا اظہار کیا تو عمران آنکھوں میں کھٹکنے لگا اور اسے سبکدوش کر کے وفاداروں پر مشتمل امپورٹڈ حکومت قائم کروائی گئی۔ عمران خان کے پُر عزم بیانیہ، عوامی حمایت اور بھرپور مزاحمت کیساتھ ابلاغ کے باشعور و سچے ارکان بھی اس مہم کا ہر اول دستہ بن گئے جو امپورٹڈ حکومت اور اس کے سہولت کاروں سے متفق نہ تھے۔ اس جدوجہد کیخلاف عمران خان، اس کے ساتھیوں اور صحافیوں کیخلاف قید و بند، دھمکیوں و بے کاری مقدمات و تشدد کے جو مظاہر سامنے آئے وہ تاریخ کا بدترین باب ہے۔ ارشد شریف میڈیا کے ان سرخیلوں میں تھا جس نے بلا جھجک خوف اور نڈر انداز سے عمران کی حمایت کا فریضہ نبھایا تھا بلکہ مخالفین کے وہ حقائق سامنے لایا جو ان کے مکروہ چہروں سے نقاب اُٹھانے کے مترادف تھا۔ ان حامۂ قرسائوں سے یہ سب کُچھ برداشت نہ ہو سکتا تھا لہٰذا اس کیخلاف ہر وہ ہتھکنڈا اپنایا گیا جو حکومتی شیطانوں کے اختیار میں تھا۔ اس کے وکیل کے مطابق ارشد شریف کو نہ عدالتوں سے کوئی ریلیف مل رہا تھا نہ دوسرے مقتدرین حتیٰ کہ میڈیا چینلز و ادارے اس کی دادرسی کرنے کو تیار نظر آتے تھے، ارشد کے پاس ملک چھوڑنے کے علاوہ راستہ نہ تھا، ارشد نے جلا وطنی میں حق کا پرچم بلند رکھا اور عمران خان کیخلاف الیکشن کمیشن کے توشا خانہ فیصلے کے جواب میں شریفوں اور زرداری کی بدعنوانیوں خصوصاً توشا خانہ کے وہ معاملات سامنے لانے والا تھا جو ان کی سیاسی بقاء کے خاتمے اور تباہی کا سبب ہوتے۔ ہم واضح طور پر یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ارشد شریف کی شہادت کے پس پردہ کردار یہی سیاسی خاندان تھے، ارشد شریف کو اماراتی حکومت سے پاکستان کو حوالگی کا مطالبہ، یو اے ای حکومت کا ارشد کو متحدہ عرب امارات چھوڑنے کا حکم اور ارشد کے پاس کسی ملک کا ویزہ نہ ہونے کے باعث کینیا میں قیام پھر وہاں کی پولیس کا ارشد شریف پر ٹارگٹڈ حملہ بہت سے حقائق کی نشاندہی ہے۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ جس وقت ارشد شریف کی شہادت پر سارے پاکستانی سوگوار تھے، لندن کے ایون فیلڈ میں دیوالی کی خوشیاں منائی جا رہی تھیں اور اس خاندان نے ارشد شریف کے حوالے سے کوئی اظہار دُکھ نہ کیا۔ بلکہ اس خاندان کی نام نہاد شہزادی نے ہندہ کی طرح اظہار مسرت کیا، استغفراللہ، ارشد کی شہادت پر کسی کو بھی اتنا دکھ نہیں ہوگا، جتنا اس کے خاندان اس کے گھر والوں کا غم تاحیات ہے۔ لوگ حسب معمول کچھ عرصے بعد اس واقعہ کو بھول جائیں گے لیکن کیا مرض کا کچھ علاج ہے یا میرے دیس کے لوگ حقیقی آزادی اور خوشحالی کیلئے یونہی مرتے رہیں گے۔ شہید کے خاندان اور وکیل کے مطالبہ پر جوائنٹ انویسٹی گیشن یا جوڈیشل تحقیقات بھی ہو جائیگی لیکن کیا کبھی کسی تحقیق کے نتائج آئے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ !
میرے وطن کے جواں مرتے رہیں گے کب تک
عوام اپنے لہو کا خراج دیتے رہیں گے کب تک
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here