محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے آج کا مقالہ ایک دوست کی تجزیاتی تحریر پر مشتمل ہے جس میں ترمیم و اضافہ اور تجزیئے کے ساتھ اس کو مقالہ کی شکل میں آپ کے لیے جمع کیا امید ہے پسند آئیگا۔ کسی داناکا قول ہے کہ اگرتم وہی کررہے ہوجوہمیشہ سے کرتے آئے ہوتو تمہیں ملے گابھی وہی جو ہمیشہ سے ملتاآرہا ہے اس لت میں مبتلا افراد کی صلاحیتیں زنگ آلود ہوجاتی ہیں آ رام دہ زندگی انسان کوکھوکھلاکردیتی ہے جس کی وجہ سے وہ آگے نہیں بڑھ سکتا،اس کی ساری زندگی گزر جاتی ہے لیکن وہ وہیں کا وہیں رہتاہے مینڈک بڑے مزے سے تالاب میں زندگی گزاررہا تھا لیکن ایک دن اس کے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔اس کو بھوک لگی ہوئی تھی۔کافی دیر سے کھانے کے لیے کچھ نہیں مل رہا تھا۔خوراک کی تلاش میں وہ پانی سے نکل کر کنارے پرآیاتو وہاں ایک پتھر پر کھانے کی چیز پڑی ہوئی تھی ۔وہ بڑاخوش ہوا اورپتھر پر چڑھ کر جیسے ہی خوراک کے قریب ہواتو ایک انسانی ہاتھ نے اس کو پکڑکرتھیلے میں ڈال دیا ۔وہ چلایا، پھڑپھڑایا لیکن تھیلے سے باہر نہیں نکل سکا۔آدمی نے گھر آکرایک برتن میں پانی بھرا ، اس کو چولہے پر رکھا اور مینڈک کو اس میں ڈال دیا۔مینڈک نے صاف پانی دیکھا تو وہ اس کو اچھا لگنے لگا۔وہ اس میں تیرنے لگا اوراس کو انجوائے کرنے لگا۔کچھ ہی دیر میں اس کومحسوس ہوا کہ پانی کا نچلا حصہ آہستہ آہستہ گرم ہورہا ہے ، اس نے پروا نہ کی ۔ کچھ دیر بعد سارا پانی گرم ہوگیا اوررفتہ رفتہ وہ شدت اختیار کرتاگیا لیکن اس نے اپنی قدرتی صلاحیت سے اپنے جسم کو ٹھنڈاکرناشروع کیا ،پانی گرم ہوتا گیا اور وہ اپنی جسمانی ٹھنڈک بڑھاتاگیا۔دو منٹ کے بعد پانی ابلنا شروع ہوگیا۔ مینڈک نے اپنے جسم کوا س کے مطابق ٹھنڈاکرنے کی کوشش کی لیکن اس کے اعصاب جواب دے گئے۔اب اس نے اچھل کود شروع کردی ۔اور پوری کوشش کرنے لگا کہ کسی طرح اس برتن سے باہرنکلے لیکن اس کی تمام جدوجہدبے کارثابت ہوئی۔تھوڑی ہی دیر میں وہ ہانپنے لگا۔اس کے جسم میں توانائی ختم ہوچکی تھی اور کچھ ہی لمحوں میں کھولتے ہوئے پانی کی تاب نہ لاکر وہ مرگیا۔
ہم انسانوں کی مثال بھی مینڈک کی اس کہانی جیسی ہے۔ہم میں سے 98فیصد لوگ ایسے ہیں جو اپنا وقت ایک خطرناک ترین جگہ پر گزارتے ہیں۔جی ہاں! خطرناک ترین جگہ ۔آپ کے ذہن میں ہوگا کہ میں تو ایسی کسی جگہ سے لاعلم ہوں لیکن نہیں! آپ نے بھی کہیں نہ کہیں اس جگہ وقت گزارا ہے۔یہ جگہ Comfort Zone(خطہ آرام) ہے جو انسان کی صلاحیتوں کا قتل اور اس کے ہنر کو زنگ آلود کرتا ہے۔۔۔۔گھر میں صوفے پر نیم دراز ہوکر ٹی وی دیکھنا ،صبح کی سیر کے بجائے نرم بستر کے مزے لینا،ہر تیسرے دن مٹن کڑاہی،چکن بریانی،پیزا، کولڈ ڈرنک سے لطف اندوزہونا، محنت وکوشش کے بجائے کام سے جان چھڑانا ، ایک اچھی نوکری چاہنا، مناسب سی تنخواہ پر گزاراکرنااور یہ خواہش کرنا کہ زندگی بھر کوئی تکلیف ، کوئی مسئلہ کوئی آزمائش میرے سامنے نہ آئے۔مجھے کوئی تنگ نہ کرے ، کیوں کہ مسائل نمٹانے سے میری جان جاتی ہے۔ محنت کرنے سے میں تھک جاتاہوں۔سبزیاں اور سلاد کھانے سے میرا من نہیں بھرتا،ورزش میں پسینہ بہاناخود کو خواہ مخواہ میں تھکادینا ہے اور نوکری کے بجائے اپنی ذات کے لیے کام کرنا مجھے بہت بڑا رسک لگتا ہے۔یہ سب انسان کے دل کی آواز ہوسکتی ہے لیکن یہ اس قدر خطرناک جال ہے کہ ا س میں پھنسنے والا انسان اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں بہت پیچھے رہ جاتاہے۔
مینڈک والی مثال کاجائزہ لیجیے۔اگر مینڈک پتیلے کے صاف پانی کے مزے نہ لیتا اور پانی شدید گرم ہونے سے پہلے وہ چھلانگ مارلیتاتو اس کی جان بچ سکتی تھی لیکن وہ پڑارہا،اس نے ایک بہترین موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا، اس نے چیلنج کو عارضی سمجھ کر نظرانداز کیا، جب با ت اس کی برداشت سے باہر ہوگئی اور اس کے لیے پانی سے نکلنا بے حدضروری ہوگیا تب اس کے پاس اتنی توانائی ہی نہیں بچی تھی کہ وہ اپنی جان بچاپاتا۔
ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتاہے۔ہم گزارے لائق زندگی کو قبول کرلیتے ہیں۔ہمارے پاس محنت کرنے ، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کرنے ، خودکو نکھارنے اور عام سے خاص بننے کاایک سنہری موقع موجود ہوتاہے لیکن کمفرٹ زون ہمیں اس قدر لطف و سرور کا عادی بنالیتا ہے کہ ہم اس کو چھوڑ ہی نہیں سکتے۔اس کی پہنائی ہوئی بیڑیوں کو ہم توڑ ہی نہیں سکتے۔ہماری سوچ ہوتی ہے کہ بس زندگی گزررہی ہے نا، تو گزرنے دو۔وقت آنے پر دیکھا جائے گا۔اس سوچ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ جب پانی ہمارے سر سے اوپر چلاجائے اور ہماری سانس بند ہونے لگے تو پھر ہمارے اندرتوانائی ہی نہیں بچی ہوتی۔ ہم صرف ہاتھ پیرہی مارسکتے ہیں ، پانی سے باہر نکلنے کی ہمت نہیں کرسکتے۔
کمفرٹ زون جس قدرخوش نما نظر آتاہے اس سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہے۔یہ ایک نشہ ہے جو غیر محسوس طریقے سے انسان کی رگوں میں اترتاہے اور اس کو اپناعادی بنالیتا ہے۔اس میں رہتے رہتے انسان کو احساس تک نہیں ہوتا کہ اس کے اندر جوقابلیت موجود ہیں وہ زنگ آلود ہونا شرو ع ہوگئی ہے۔رفتہ رفتہ وہ اپنی صلاحیتوں سے محروم ہوناشروع ہوجاتاہے اور پھر ایک وقت آتاہے کہ وہ ایک نکما، تن آسان اور انتہائی سست انسان بن جاتاہے۔
قابلیت سے محروم ایسا انسان اپنی زندگی میں چیلنج نہیں لے سکتا۔معمولی حالات خراب ہونے پر بھی اس کے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔اس کے اندر زندگی کے حقائق تسلیم کرنے اور ان سے لڑنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔اس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی۔ایساشخص اپنی زندگی بدلنا چاہ رہا ہوتاہے،وہ چاہتاہے کہ میں ایک نامور انسان بن جائوں لیکن یہ صرف خواہش ہوتی ہے اس کو عملی شکل دینے کے لیے وہ کچھ کرتانہیں ہے۔وہ رسک لینے کو تیار نہیں ہوتا۔وہ راستہ بدلنے ،ہجرت کرنے ، پسندیدہ نوکری چھوڑنے اورتبدیلی کی قیمت چکانے کوتیار نہیں ہوتا۔اس کی زندگی میں نئے لوگ نہیں آتے کیونکہ رشتے بنانے اور نبھانے کے لیے تین چیزیں درکارہوتی ہیں۔توجہ ،ٹائم اور پیسہ۔ہر رشتے کو توجہ دینی ہوتی ہے، اس کے لیے وقت نکالنا ہوتاہے۔شادی بیاہ اورغمی خوشی میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور بوقت ضرورت پیسے بھی خرچ کرنے ہوتے ہیں لیکن کمفرٹ زون کا قیدی شخص یہ سب نہیں کرسکتا ،کیونکہ وہ آرام دہ زندگی گزارنے کا عادی ہوچکا ہوتاہے
کمفرٹ زونمیں رہنے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ یہ انسان کی پیشہ ورانہ زندگی کوکھوکھلاکرنا شروع کرتاہے، جس کی وجہ سے ایسا شخص اپنے میدان میں آگے نہیں بڑھ سکتا۔اس کی ساری زندگی نکل جاتی ہے لیکن وہ وہیں رہتاہے جہاں آج سے بیس سال پہلے تھا
کمفرٹ زونانسان کی صحت کو بھی متاثر کرتاہے۔ٹی وی کے سامنے صوفے پر بیٹھ کر اور ایک ہاتھ میں پاپ کارن کا پیکٹ لے کر گھنٹوں گزارنا ، واک نہ کرنا ، کھانااورسوجانا، تلی ہوئی چیزوں کے سہارے جینا اور اس جیسی بے شمار عادات کے نتیجے میں اس کی صحت جواب دے جاتی ہے۔وہ ہروقت کسی نہ کسی طبی مسئلے کا شکار ہوتاہے یہ معاشرے کا اجتماعی رویہ ہے اور اسی کی بدولت ہر علاقے میں آپ کومیڈیکل اسٹورز پر رش نظر آئے گا
کمفرٹ زونمیں رہنے والا انسان نئی چیزیں نہیں سیکھتا، اپنی شخصیت پر محنت نہیں کرتا، اپنی کمزوریوں کو دور نہیں کرتا۔نتیجتا وہ ایک بیکار انسان بن کر رہ جاتاہے جو نہ اپنی زندگی کو بدلنے کی ہمت رکھتاہے اور نہ دوسروں کی۔کمفرٹ زونانسان کے رشتوں کو بھی کمزور کردیتاہے۔وہ رشتے نبھانا تو چاہتاہے لیکن اپنے کمفرٹ زونکی شرط پر ۔وہ اپنے وقت اور توجہ کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ اس کے دوست احباب اور رشتے دار اس سے دور چلے جاتے ہیں۔اس سے انسان کی( Will Power)قوت ارادی بھی کمزور ہو جاتی ہے۔اس کے اندر کچھ نیا کرنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی۔حالانکہ انسان تووہ مخلوق ہے کہ اگر وہ اپنی سوچ بدل لے تو اس کی پوری زندگی بدل جاتی ہے۔وہ اپنی زندگی میں کوئی اچھا استاد، دوست یا کتاب شامل کرلے تو اس کی تقدیر بدل جاتی ہے لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتاکیوں کہ کمفرٹ زوننے اس کی ہمت کی عمارت کو شکستہ کردیا ہوتاہے
تو کیا آپ کے اندر کمفرٹ زونسے نکلنے کی ہمت ہے؟اگر ہے تو اٹھیے اوراپنے زورِ بازو سے جیل کی یہ سلاخیں توڑ کر خود کو آزاد کیجیے لیکن آپ اب بھی آزا د نہیں ہوں گے۔کمفرٹ زونسے نکل کر آپ ایک اور دائرے میں آجائیں گے جس کو Fear zone(خطہ خوف) کہاجاتاہے۔ یہاں آپ کو ہر وقت یہ فکر کھاتی رہے گی کہ میں کوئی نیا قدم تو اٹھالوں گا لیکن لوگ کیا کہیں گے؟آپ جب بھی خود کو بدلنے کی کوشش کریں گے تو اندر سے آواز آئے گی : لوگ کیا کہیں گے؟ یہ خوف آپ کے ذہن پر سوار ہوکر آپ کوکچھ نیا کرنے نہیں دے گا۔بار بار کی کوشش کے بعد آپ کو اپنے اوپر کچھ شک ہونے لگتاہے کہ شاید میرے اندر قابلیت کی کمی ہے اس وجہ سے میں کچھ نہیں کرسکتالیکن یہ ایک فریب ہوتاہے جس میں آپ کاخوف آپ کودھکیلنے کی کوشش کرتاہے۔یہاں رہ کر آپ کانفس بہانے ڈھونڈنے لگتاہے۔ کسی بھی ناکامی پرآپ کے اندرسے فوری یہ آواز آتی ہے کہ یہ تو فلاں شخص کی وجہ سے ایسا ہوگیاوگرنہ میں تو یوں کرنے والاتھا۔اس دائرے میں رہتے ہوئے آپ کے اندر قوت فیصلہ کی بھی کمی ہوتی ہے ۔آپ دوسروں کے فیصلوں کے محتاج ہوتے ہیں ،یعنی گاڑی تو آپ کی ہوتی ہے لیکن ڈرائیونگ سیٹ پر کوئی اور بیٹھا ہوتاہے
یہاں آپ کے اندر کوئی بولتاہے کہ بغاوت کرو، ان حالات کو قبول مت کرو،یہاں سے نکلو۔آپ اپنا پورا زورلگاکر ان سلاخوں کو بھی مروڑ دیتے ہیں۔آپ Fear zoneسے آزاد ہوجاتے ہیں۔اب ایک تیسرا دائرہ شروع ہوتا ہے جس کو Learning zoneکہتے ہیں۔اب آپ کے اندر ہمت آچکی ہوتی ہے۔آپ نئے چیلنجز لیتے ہیں۔آپ نئے تجربات بھی کرتے ہیں ، اس سوچ کے ساتھ کہ ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیاجائے۔آپ ہر انسان اور ہر واقعے سے سیکھتے ہیں۔مختلف طرح کے حالات کا سامنا کرنے کی بدولت آ پ کے اندر Problem solving(مسائل حل کرنے کی صلاحیت) آجاتی ہے۔آپ کو جتنی بھی مشکلات کاسامنا ہو، جتنی بھی تنقید آپ کے اوپر کی جائے آپ ان سب چیزوں کو زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں اور ان کاحل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔یہیں آپ اپنے اندر نئی اسکلزبھی پیدا کرتے ہیں۔آپ کے دل میں سوالات مچلتے ہیں ،جن کے جوابات آپ تلاش کرتے ہیں اور آپ کے سامنے نئے راستے کھلتے ہیں
سیکھنے کا یہ سفر آپ کو ایک بہترین شانداردائرے میں لے آتاہے جس کو Growth zone(خطہ نمو) کہتے ہیں۔نمو کا مطلب ہے قدم بقدم پروان چڑھنا۔ دنیا میں جتنی بھی ترقی ہوئی ہے اس خطہ کی وجہ سے ہوئی ہے۔یہاں آکر سب سے پہلی کامیابی آپ کویہ ملتی ہے کہ آپ کو زندگی کا مقصد مل جاتاہے۔آپ کے اندر خواب پلناشروع ہوجاتے ہیں۔یہ خواب آپ کوبے چین رکھتے ہیں۔آپ کو تڑپاتے ہیں ، آپ کروٹ پہ کروٹ بدلتے ہیں ، آپ راتوں کو اچانک اٹھ کر اپنے خوابوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔آپ کی آنکھوں میں نیند نہیں ہوتی کیونکہ وہاں خوابوں کابسیرا ہوتاہے۔یہ تڑپ ، یہ شوق آپ کو جواز ہستی(مقصدحیات) کے انعام سے نوازدیتاہے۔
زندگی کا مقصد آپ کوآگے بڑھنے کی تحریک فراہم کرتاہے۔یہ آپ کو ٹریک پر رکھتاہے۔کبھی آپ سمت کھوجائیں تو یہ آپ کو واپس ٹریک پر لاتاہے۔کبھی آپ کے پائوں ڈگمگاجائیں تو یہ آپ کودوبارہ ہمت دیتاہے۔آپ کی زندگی کامقصد جس قدر بڑا ہوگا اتنا ہی مرنے کا خوف بھی کم ہوگا،کیونکہ موت انسان کو آتی ہے ، مقصد کو نہیں۔ ملتے ہیں اگلے ہفتے دعائوں میں یاد رکھیں۔
٭٭٭