فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ

0
242

محترم قارئین! حضور نبی اکرمۖ کو اللہ پاک نے سر کے بالوں سے لے کر پائوں کے ناخنوں پر معجزہ بنا کر بھیجا ہے۔ آپۖ کو تمام صفات کمالیہ عطائیہ کے ساتھ ماننا ہی اصل ایمان ہے احادیث کی کتب آپکے معجزات سے بھری پڑی ہیں۔ اہل سنت وجماعت خوش قسمت ہیں جو نہ صرف نبی پاکۖ کی شانوں کے قائل ہیں بلکہ تمام انبیاۖء کرام علیھم السلام اور اولیاء کرام کی عظمتوں کے قائل بھی ہیں۔ رضی اللہ عنھم اجمعین حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ احزاب کے دن ہم خندق کھود رہے تھے کہ ایک سخت زمین ظاہر ہوئی صحابہ کرام علیھم الرضوان نبی پاکۖ کے پاس آئے اور عرض کی کہ خندق میں سخت زمین پیش آگئی ہے آپ نے فرمایا: میں خندق میں اترتا ہوں۔ پھر آپ کھڑے ہوئے(حالانکہ بھوک کی شدت سے آپ کے شکم پر پتھر بندھا ہوا تھا اور ہم نے بھی تین دن سے کچھ نہ چکھا تھا) حضورۖ نے کرالی لی اور ماری تو وہ زمین ریگ رواں کا ایک ڈھیر بن گئی۔ میں نبی پاکۖ کی یہ حالت دیکھ کر اپنی بیوی کے پاس آیا اور اس سے کہا کیا تیرے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ میں نے نبی پاکۖ میں سخت بھوک کی علامت دیکھی ہے تو میری بیوی نے ایک تھیلی نکالی۔ جس میں ایک صاع جوتھے ہمارے ہاں گھر میں پلا ہوا ایک بکری کا بچہ تھا میں نے اسے ذبح کیا میری بیوی نے جو پیس لئے ہم نے گوشت دیگ میں ڈال دیا۔ پھر میں نبی پاکۖ کی خدمت میں آیا اور چپکے سے عرض کی یارسول اللہ! ہم نے ایک بکری کا بچہ ذبح کیا ہے اور میں بیوی نے ایک صاح جو پیسے ہیں آپ مع چند صحابہ کرام علیھم الرضوان کے تشریف لائیں۔ یہ سن کر آپ نے آواز دی اسے اہل خندق! جابر کی طرف سے ضیافت تیار کی گئی ہے جلدی آئو۔ پھر آپ نے مجھے فرمایا: تم میرے آنے تک دیگ نہ اتارنا اور خمیر کو نہ پکانا جب آپ تشریف لائے تو میری بیوی نے آپ کے سامنے خمیر نکالا۔ آپ نے اس میں اپنے دہن مبارک کا لعاب ڈال دیا اور دعائے برکت فرمائی پھر میری بیوی سے فرمایا: روٹی پکانے والی کو بلا کہ تیرے ساتھ روٹی پکائے۔ اور تو اپنی دیگ میں سے کفگیر سے گوشت نکالنا اور دیگ کو چولہے پر سے نہ اتارنا راوی کا بیان ہے کہ اہل خندق جو ایک ہزار تھے اللہ کی قسم سب کھا چکے یہاں تک کہ اسے باقی چھوڑ گئے۔ مگر دیگ اسی طرح جوش مار رہی تھی اور خمیر اسسی طرح پکایا جارہا تھا قصہ مذکورہ بالا میں روایت احمد ونسائی میں ہے کہ جب آپۖ نے اس سخت پتھر پر بسم اللہ کہہ کر کرال ماری تو اس کی ایک تہائی ٹوٹ گئی آپ نے فرمایا:اللہ اکبر! مجھے ملک شام کی کنجیاں دی گئیں۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت ملک شام کے محلات دیکھ رہا ہوں پھر آپ نے دوسری کدال ماری تو دوسری تہائی ٹوٹ گئی۔ آپ نے فرمایا:اللہ اکبر! مجھے فارس کی کنجیاں دی گئی ہیں۔ خدا کی قسم! میں اس وقت مدائن کیسریٰ کا سفید محل دیکھ رہا ہوں پھر تیسری بار کدال ماری تو باقی تہائی بھی ٹوٹ گئی۔ آپ نے فرمایا:اللہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دی گئیں۔ خدا کی قسم: میں اس وقت یہاں سے ابواب صنعاء کو دیکھ رہا ہوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں چند کھجوریں آپۖ کی خدمت میں لایا۔ میں نے عرض کیا:یارسول اللہ! ان میں دعائے برکت فرمائیں: آپ ۖ نے دست مبارک میں لے کر دعائے برکت فرمائی اور فرمایا کہ لو ان کو اپنے توشہ میں رکھ لو۔ جس وقت ان میں سے لینا چاہو تو ہاتھ ڈال کر نکال لیا کرنا اور توشہ دان کو نہ جھاڑنا۔
ہم نے ان میں سے اتنے اتنے وسق راہ خدا میں دے دیئے خود کھاتے اور دوسروں کو کھلاتے رہے وہ توشہ دان میری کمر سے جدا نہ ہوتا تھا یہاں تک کہ جب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن آیا تو وہ گیا ہوگیا روایت میں آیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ اس دن فرماتے تھے” لوگوں کو ایک غم ہے اور مجھے دو غم ہیں۔ توشہ دان گم ہونے کا اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا حضرت سالم بن الجعد رضی اللہ عنہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حدیبیہ کے دن لوگوں کو پیاس لگی نبی پاکۖ کے پاس ایک چھاگل تھی آپۖ نے اس سے وضو فرمایا تو لوگ پانی کے لئے آپ ۖ کی طرف دوڑے۔ آپ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا کہ آپ کی چھاگل کے پانی کے سوا ہمارے پاس نہ وضو کرنے کو پانی ہے اور نہ پینے کو آپ ۖ نے اپنا ہاتھ مبارک اس چھاگل پر رکھا پس آپ ۖ کی مبارک انگلیوں سے چشموں کی طرح پانی نکلنے لگا۔ ہم نے لیا اور وضو کیا میں نے حضرت جابر سے پوچھا تم اس دن کتنے تھے؟ آپ نے جواب دیا کہ ہم ڈیڑھ ہزار تھے اگر ایک لاکھ بھی ہوتے تو وہ پانی کفایت کرتا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقائق کو سمجھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے(آمین ثم آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here