اب پاکستان میں سیاسی بنیادوں پر مقدمات کا سلسلہ روکنا چاہیے، پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار میں آنے والی ہر حکومت نے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے اور انہیں عدالتی پیچیدگیوں میں اُلجھانے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ روایت محض شخصیات کو نشانہ بنانے تک محدود نہیں رہی بلکہ اس نے ملک کے عدالتی و جمہوری ڈھانچے کو بھی شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ہم بطور قوم اس طرزِ سیاست کو مسترد کریں اور ایک ایسا نظام قائم کریں جہاں قانون سب کے لیے برابر ہو اور عدالتیں سیاسی دبا سے آزاد رہیں۔سیاسی بنیادوں پر مقدمات قائم کرنے کی روایت کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اس سے عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ عدالتیں اور تحقیقاتی ادارے سیاسی حکم پر کسی کو گرفتار کرتے ہیں اور برسراقتدار جماعت کے افراد کو ریلیف مل جاتا ہے، تو انصاف کا تاثر شدید متاثر ہوتا ہے۔ انصاف کا اصول یہی ہے کہ وہ اندھا ہو، کسی کی جماعت، حیثیت یا نظریے کو نہ دیکھے۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں انصاف کے ترازو کے پلڑے اکثر اقتدار کے تابع نظر آتے ہیں۔اس روش کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ یہ سیاست کو ایک انتقامی کھیل بنا دیتی ہے۔ ہر آنے والی حکومت پچھلے حکمرانوں کے خلاف مقدمات دائر کرتی ہے، اور اگلی حکومت انہی کے خلاف جوابی کارروائی شروع کر دیتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ملک کی توانائی ترقی، معیشت اور عوامی مسائل کے حل پر صرف ہونے کے بجائے ایک دوسرے کو زیر کرنے پر لگ جاتی ہے۔ یہ تسلسل نہ صرف جمہوریت کے لیے زہر قاتل ہے بلکہ ریاستی اداروں کو بھی کمزور کرتا ہے۔سیاسی بنیادوں پر مقدمات کا ایک اور سنگین اثر یہ ہے کہ اس سے ملک میں سیاسی پولرائزیشن (انتہائی تقسیم) بڑھتی ہے۔ مخالفین کو دشمن سمجھنے کی سوچ پروان چڑھتی ہے، بات مکالمے کے بجائے انتقام تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ ماحول عوام کو بھی تقسیم کرتا ہے اور معاشرے میں عدم برداشت کی فضا پیدا کرتا ہے۔ ایک صحت مند جمہوریت میں اختلافِ رائے کو برداشت کیا جاتا ہے، لیکن جب اختلاف کو جرم بنا دیا جائے تو سیاست دشمنی میں بدل جاتی ہے۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سلسلے کو کیسے روکا جائے؟ سب سے پہلے تو تحقیقاتی اداروں کو مکمل طور پر سیاسی اثر و رسوخ سے آزاد کرنا ہوگا۔ نیب، ایف آئی اے اور دیگر اداروں کے سربراہان کی تقرری شفاف اور غیرجانبدار طریقے سے ہونی چاہیے، اور ان کا احتساب بھی ممکن ہو۔ دوسرا اہم قدم یہ ہے کہ عدالتیں مقدمات کے فیصلے میں غیرضروری تاخیر سے گریز کریں۔ برسوں تک زیرِ التوا رہنے والے سیاسی مقدمات اکثر عوامی تاثر میں کمزور پڑ جاتے ہیں، اور لوگ انہیں محض سیاسی انتقام سمجھنے لگتے ہیں۔
سیاسی قیادت کو بھی اپنی ذہنیت بدلنی ہوگی۔ اگر آج آپ اقتدار میں ہیں اور مخالفین کو نشانہ بنا رہے ہیں تو کل یہی ہتھیار آپ کے خلاف استعمال ہو سکتا ہے۔ پختہ جمہوریت اسی وقت پنپ سکتی ہے جب حکومت اور اپوزیشن دونوں یہ اصول مان لیں کہ اختلاف کو قانونی، اخلاقی اور پارلیمانی دائرے میں رہ کر حل کیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک قومی میثاقِ سیاست کی ضرورت ہے، جس میں طے کیا جائے کہ کوئی بھی جماعت مخالفین کو دبانے کے لیے مقدمات کا سہارا نہیں لے گی۔پاکستان کو آگے بڑھنے کے لیے اس انتقامی سیاست کو دفن کرنا ہوگا۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا ہوگا جہاں سیاسی اختلاف کو برداشت کیا جائے، عوامی خدمت کو سیاست کا مقصد سمجھا جائے، اور عدالتیں سیاست سے بالاتر ہو کر فیصلے سنائیں۔ ورنہ ہم اسی چکر میں پھنسے رہیں گے جہاں ماضی کی حکومتیں موجودہ حکمرانوں کے دشمن، اور موجودہ حکمران کل کے ملزم بن جائیں گے۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم سیاسی بنیادوں پر مقدمات بنانے کی روایت کا خاتمہ کریں اور ایک ایسا پاکستان تشکیل دیں جہاں قانون کی حکمرانی ہو، انصاف سب کو ملے، اور سیاست عوام کی خدمت کے لیے ہو، نہ کہ مخالفین کو کچلنے کا ہتھیار۔ یہی جمہوریت کی اصل روح ہے اور یہی ہماری قومی ترقی کا راستہ ہے












