کیا پاکستان میں الیکشن کی بجائے واقعی سلیکشن ہوتی ہے؟ کیا پاکستان میں انتخابات شفاف ہوتے ہیں؟ کیا آئین کی منشا پر عمل ہوپائے گا؟ اگر کوئی مجھ سے یہ سوالات پوچھے تو میرے جواب بھی سوالیہ انداز میں کچھ یوں ہوں گے۔ کیا پاکستان میں پہلی بار الیکشن کی بجائے سلیکشن ہونے جا رہی ہے۔ کیا پاکستان میں اس سے قبل شفاف انتخابات ہوئے ہیں؟ کیا اس سے قبل پاکستان میں آئین کے منشا پر عمل کیا گیا ہے؟ جب پہلے تمام سوالات کے جواب نہیں میں ہیں تو پھر گزشتہ پانچ سالوں میں پاکستان میں ایسا کیا انقلاب برپا ہو چکا ہے جس کے بعد یہ خواب حقیقت کی شکل اختیار کرے گا تو پھر ہمیں انتخابات کی ضرورت کیا ہے؟ ہم شفاف انتخابات کا مطالبہ کیوں کرتے ہیں؟ اور آئین کے منشا کی فکر کیوں کھائے جا رہی ہے۔ شاید ایک ڈرامہ ہے جس میں ہر بار کردار بدل جاتے ہیں مگر سکرپٹ وہی پرانا چلتا ہے۔
ہر دفعہ ہمیں نئے انقلابی دیکھنے کو ملتے ہیں اور ہر بار پاکستان کے ریاستی اداروں کے اندر آئین کے منشا پر عمل کرنے کا ڈھونگ جنم لیتا ہے۔ جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا بیان میری نظر میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، انہوں نے کہا ہے کہ انتخابات دو چار ماہ اگے بھی چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں۔ یہ نہیں کہ مولانا فضل الرحمن انتخابات کے حق میں نہیں مگر جس طرح انتخابات کا ڈرامہ ہونے جا رہا ہے شاید اسی تناظر میں انہوں نے کہا ہے کہ ایسے انتخابات دو چار ماہ اور بھی اگے چلے جائیں تو ملک کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ ڈرامہ کی ریلیز میں اگر دو چار ماہ اور بھی لگ جائیں تو کیا حرج ہے۔ بات وہی ہے کہ پاکستان میں انتخابات کے انعقاد میں حائل رکاوٹوں کا تعین ضروری ہے، آئین کے منشا کو روندنے والوں کا چہرہ سامنے لانا ضروری ہے،اور وہ ایسے بیانات سے سامنے نہیں آئے گا کہ ہماری کسی سے کوئی مخالفت نہیں،، ہمیں آئین کے منشا کو روندنے والوں سے پیار ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں آئین کے محافظ پارلیمنٹ کو ہی نئے اور پرانے انقلابیوں نے اس قدر تذلیل کا نشانہ بنایا ہے کہ اب پارلیمنٹ پاکستان میں ایک علامتی ادارہ بنتا جا رہا ہے۔ پارلیمنٹ کی مضبوطی کے لیے کن کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے یہ بتانے اور کہنے کی اب ضرورت نہیں۔ پارلیمنٹ کو مضبوط بنانے والوں کو اگر سمجھ آگئی تو وہ ہر پانچ سال بعد ہمیں روتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے اور نہ ہی ایک اسٹیبلشمنٹ کے اگے بھیک مانگیں گے کہ ایک الیکشن کا سوال ہے بابا۔
٭٭٭