جہاں ایک طرف نئے سال کی خوشیاں منائی جا رہی ہیں، دنیا بھر میں جشن کا سماں ہے، پاکستان سے امریکہ تک پوری دنیا میں لوگ اپنے پیاروں کے ساتھ پرمسرت تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں لیکن اس دوران فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ان سب خوشیوں میں گم ہوگئے، گزشتہ چند مہینوں سے مظلوم فلسطینیوں کے لیے آواز بلند کرنے والے چہرے اپنی خوشیوں میں ان بے سہارا افراد کو بھول گئے جوکہ موت کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے کھڑے ہیں۔غزہ پر اسرائیلی بمباری کو چھیاسی دن ہوچکے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت، فوج اور ان کے سیاستدانوں کے بیانات میڈیا پر نسل کشی کے ارادوں کو کھلم کھلا بیان کر رہے ہیں۔ جتنے ٹن بم امریکہ نے افغانستان کے ملک پر ڈیڑھ سال کے عرصے میں گرائے تھے اس سے زیادہ بم اسرائیل تین مہینے میں غزہ کے چھوٹے سے علاقے پر گرا چکا ہے۔کرس ہیجیز (Chris Hedges) ایک امریکی پلٹزر انعام یافتہ نامہ نگار ہیں۔ انھوں نے بوسنیا سربیا جنگ کی رپورٹنگ بھی کی تھی اور اب پچھلے سات سال سے غزہ سے رپورٹنگ کر رہے ہیں۔ اس عرصے میں وہ زیادہ تر نیو یارک ٹائمز کے لیے لکھتے تھے اور ان کی رپورٹ کو اخبار کی پالیسی کے مطابق ڈھال دیا جاتا تھا۔ انھوں نے اپنی چھٹی کے دوران ایک کتاب غزہ کی ڈائری کے نام سے شائع کر دی اور اس میں جو سچ تھا اس کی بنا پر ان سے کہا گیا کہ اب آپ کبھی نیویارک ٹائمز کے لیے مڈل ایسٹ سے رپورٹنگ نہیں کریں گے۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت اس ڈھٹائی سے جھوٹ بولتی ہے کہ وہ اور ان کے ساتھی نامہ نگار دم بخود رہ جاتے ہیں۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ وہ خود نہتے فلسطینیوں کے قتل کے عینی شاہد ہوں یا ان کے پاس اس کا تصویری ثبوت ہو۔ اسرائیلی فوری طور پر جھوٹا بیان داغ دیتے ہیں۔ جھوٹ چھوٹا ہو یا بڑا ہو۔ اسے ان کے فوجی ترجمان، سیاستدان اور ان کا میڈیا فوراً دہرانا شروع کر دیتا ہے۔ اور بین الاقوامی کارپوریٹ میڈیا خوشامدانہ انداز میں اس جھوٹ کو حقیقت کی طرح دہرانا شروع کر دیتا ہے۔کرس ہیجز کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکالنے کا پلان 13 اکتوبر 2013 میں بنایا جا چکا تھا۔ غزہ صرف بیس میل لمبے اور پانچ میل چوڑے علاقے پر مشتمل ہے۔ اس پر اسرائیل پہلے دو ہفتے کی بمباری میں 22000 بم گرا چکا تھا اور رہائشی علاقوں، فراہمی اور نکاسی آب کے ذرائع، اسپتالوں، اسکولوں، اقوام متحدہ کے آفس اور بیکریوں کو حماس کا نام لے لے کر تباہ کر رہا تھا۔ اس وقت شہریوں سے کہا گیا تھا کہ وہ غزہ کے جنوبی علاقے میں چلے جائیں اور اب ان ہی علاقوں پر ان رفیوجی کیمپوں پر بمباری ہو رہی ہے۔ اس دوران میں امریکہ دو مرتبہ ایمرجنسی کے تحت کانگرس سے پوچھے بغیر اسلحہ اور بم اسرائیل بھجوا چکا ہے۔اسرائیل نے پہلے دن سے ہی کھانا، پانی، پٹرول، دواو?ں اور زندگی کی تمام ضروریات کا غزہ میں داخلہ بند کر دیا تھا۔ دو مہینے کے بعد اب ان بے خانماں لوگوں کے پاس پینے کو پانی اور کھانا نہیں ہے۔ روزانہ سینکڑوں جاں بحق ہو رہے ہیں اور ہزاروں زخمی ہو رہے ہیں۔ ان زخمیوں کے لیے آپریشن کی سہولیات نہیں ہیں بلکہ اسپتال نہیں ہیں اور اب ان بے گھر مظلوموں میں سردی اور بارش سہنے کے بعد بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ بیس ہزار سے زیادہ لوگ بمباری میں مرے ہیں لیکن اندیشہ ہے کہ اب بیماریوں میں اس سے زیادہ جانیں ضائع ہو جائیں گی۔ہم جس دنیا میں جی رہے ہیں اسے مغربی مفادات نے تشکیل کیا ہے۔ پہلے یورپی ممالک نے ایشیائی اور افریقی علاقوں پر قبضہ کیا، پھر امریکہ، آسٹریلیا اور بہت سے آباد جزیروں کو ”دریافت” کیا۔ اور اپنی عسکری طاقت سے وہ علاقے وہاں کے باشندوں سے چھین کر ان پر اپنے پرچم لہرائے۔ ان کی معدنیات اور ذرائع کو اپنے ممالک کی دولت اور کامیابی کا ذریعہ بنایا اور اصل باشندوں کو محتاج بنا کر جب چھوڑا تو بھی ان کی سیاسی زندگی میں دخل اندازی کر کے انھیں پنپنے نہ دیا۔ایک زمانے تھا کہ ملکہ وکٹوریہ کی سلطنت اتنی وسیع تھی کہ اس میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا۔ اور اسرائیل اسی نظام کا پروردہ ہے۔ کہ چند امیر گورے مردوں نے مل کر طے کر لیا کہ فلسطین کی زمین پر یورپ کے یہودیوں کو آباد کر دیں گے۔ اس وقت دنیا کی وہ سب قومیں جنہوں نے خود یہ مظالم سہے تھے فلسطینیوں پر کیے جانے والے مظالم کا احساس رکھتی ہیں۔ جن میں آواز اٹھانے والوں میں جنوبی افریقہ اور آئر لینڈ سر فہرست ہیں۔ جنوبی افریقہ نے نسلی امتیاز کا عذاب سہا تھا اور آئر لینڈ نے گوری قوم ہونے کے باوجود انگلستان کا جبر سہا تھا۔اگر اسرائیل اپنے مذموم ارادوں میں کامیاب ہوجاتا ہے جن میں فلسطینیوں سے ان کی شناخت چھیننا ہی نہیں بلکہ فلسطین کا تصور ہی دنیا سے مٹا دینا ہے۔ اور پوری دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ اب کرہ ارض پر صرف امریکہ کی مرضی چلتی ہے، اس کے دوست ہو تو روس کی یوکرین پر بمباری جنگی جرم قرار دی جائے گی اور اسرائیل کی فلسطینیوں پر اس سے دس گنا بدتر بمباری اسرائیل کی بقا کے لیے ضروری قرار دی جائے گی اور دنیا کے احتجاج کے باوجود اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں کچھ نہ کر پائیں گی۔مسلمانوں کے لیے یہ اس لیے اور بھی اہم ہے کہ فلسطینیوں کے نکالے جانے کے بعد اسرائیل مسجد اقصیٰ کو ڈھا دے گا اور یہ بابری مسجد نہیں ہے، مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔
٭٭٭