اسلام آباد کی ٹھنڈی ہوائوں کی تپش!!!

0
103

دسمبر کے یہ دن پاکستانی معیار کے مطابق سردی کے دن شمار ہورہے ہیں۔ نیوجرسی جیسے سرد علاقے سے آنے والے، اپنے میزبانوں کو اس خیالی سردی میں ٹھٹھرتے دیکھ کر کافی محظوظ ہوتے ہیں۔ البتہ جب سردی کا علاج ڈرائی فروٹ اور مردان و چارسدہ کے لذیذ گڑ سے ہو رہا ہو تو تھوڑی سی سردی ہمارے جیسے مہمانوں کو بھی لگنا شروع ہو جاتی ہے۔ ٹھنڈی ہوائوں میں منعقد ہونے والی محفلوں میں ہونے والی گفتگو بظاہر تو ہمیشہ کی طرح سیاسی ہی رہی لیکن اس مرتبہ سرد موسم کے باوجود بحث و مباحثہ کے حد سے تجاوز رہنے والے درجہ حرارت نے مجھے چونکا دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہماری جان پہچان کے حلقے میں اسٹیبلشمنٹ کے قریب کے لوگ بھی ہیں اور دوسری طرف خان کے دیوانے لوگ بھی، گپ شپ لگانے کیلئے کچھ وقت دے دیتے ہیں۔ میرے پچھلے وزٹ کے دوران تو کوئی مشترکہ نشست بھی ممکن ہو جاتی تھی لیکن اس دفعہ اندازہ ہوا کہ درجہ حرارت اتنا بڑھ چکا ہے کہ مل جل کر بیٹھنا بھی محال ہے۔ حکمران ایلیٹ کے غصے کی کوئی انتہا ہی نہیں ہے۔ آپس میں انا کے جھگڑے تو انکے پہلے بھی چلتے رہتے تھے لیکن اب عوام الناس پر قابو پانے کی ساری کوششیں ناکام ہوتے دیکھ کر غصے کی شدت میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ غصے کی حالت میں ان کا ہر فیصلہ حالات میں مزید گرما گرمی پیدا کر رہا ہے۔ خان کے دیوانے بھی دیوانگی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ آرام و سکون سے گفتگو تو بھول جائیں یہاں تو دوسری طرف کی کوئی بات سننے کا ماحول ہی نہیں ہے۔اپنے ساتھ سفر کرنے والے ایک ڈرائیور سے میں نے پوچھا کہ کیا مہنگائی اس عوامی غم و غصہ کا اصل محرک ہے۔ جواب ملا، مہنگائی تو ہم برداشت کرلیتے لیکن بے عزتی اور بے غیرتی ہمیں قبول نہیں ہے۔ جرنیلوں اور ججوں کو جو گالیاں اس وقت دی جاری ہیں، کم از کم میرے پچھلے پاکستانی ٹرپ میں تو نہیں مل رہی تھیں۔ اسلام آباد کی ٹھنڈی ہوائوں میں یہ گرمی اور تپش ہمارے پیارے ملک کے مستقبل کیلئے کوئی اچھا شگون ہرگز نہیں ہے۔ طاقت کی لاٹھی بہت تیزی سے بے اثر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اعلیٰ عدالتیں بے توقیر ہوگئی ہیں۔ غیر نمائندہ حکومت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنا، ملک و قوم کے بہتر مستقبل کیلئے بڑا خطرہ ہے۔ دعا ہے کہ ہمارا پیارا ملک اس خطرناک بحرانی کیفیت سے جلد نکل آئے۔ آمین۔آج اتوار کے برنچ کی محفل سجانے لگے تو پتہ چلا کہ سب سے سستا اور اچھا برنچ اسلام آباد کلب میں مہیا ہے لیکن کسی میزبان کا کلب کا ممبر ہونا ضروری ہے۔ پتہ چلا کہ ہمارے تین قریبی احباب ممبر بھی ہیں اور ہماری میزبانی کیلئے بیتاب بھی۔ اب ہمیں ان تین میں سے ہی ایک ایسے میزبان کا انتخاب کرنا تھا۔ یہ کام آسان تو نہ تھا لیکن رین چیک کا استعمال کرکے باقی دو کو اگلی کسی باری پہ راضی کرلیا۔میرے لئے حیرانی کی بات یہ تھی کہ سب سے سستا اور اچھا کھانا بھی اس کلب کے ذریعے ایلیٹ کلاس کو ہی میسر ہے۔ جس عوام کے ٹیکس سے اس کلب کو چلایا جارہاہے، وہ یہاں آسانی سے داخل بھی نہیں ہو سکتے۔ بہرحال، کلب کے اس سائن بورڈ کو جس پر فوٹو گرافی کی ممانعت کا نوٹس تھا، ہمارے احباب نے اچھے خاصے فوٹو لینے کے بعد پڑھا۔ سمارٹ فون کے کیمروں کے اس دور میں تصویر کشی پر پابندی بالکل لایعنی لگتی ہے لیکن بہرحال موجود ہے۔ اس برنچ کی خصوصیت یہ ہے کہ مغربی ڈشوں کے ساتھ ساتھ ٹریڈیشنل پاکستانی کھانے بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ مکئی کی روٹی کے ساتھ ساگ، سری پائے، اور یخنی وغیرہ ایک طرف اور BBQ کئے ہوئے کباب، مٹن بوٹی اور چکن تکہ وغیرہ دوسری طرف، اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ سامعین کیلئے پوری طرح قربان ہورہے تھے۔ سامعین اس لئے کہ لگ یہ رہا تھا کہ دراصل لوگ وہاں میڈم نورجہاں کے پرانے کلاسیکل گانے سننے کیلئے آئے تھے جو انتہائی بلند آواز سے کلب کے کونے کونے تک پہنچائے جا رہے تھے۔ البتہ ایک چیز کو میں نے ضرور مس کیا کہ پاکستانی ہوٹلوں میں اکثر یہ نوٹس لگا ہوا ملتا تھا کہ یہاں سیاسی گفتگو کرنا سخت منع ہے۔ یہاں کوئی ایسا نوٹس نظر نہیں آیا۔ نتیجہ یہ کہ یہاں بھی سرد ہوا دراصل سیاست کی تپش اور گرمی ہی فراہم کر رہی تھی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دارالحکومت ہونے کہ وجہ سے، اسلام آباد کے اس شہر میں بہت محتاط رہنا پڑتا ہے۔ سیاسی لوگ اور بیوروکریٹس تو ہوتے ہی ناقابلِ اعتبار ہیں لیکن اب جرنیلوں اور ججوں کی حالت بھی مخدوش ہے۔ ٹی وی کے نیوز چینلز اور اخبارات کی خبروں کو تو لوگ اب خبر ہی تسلیم نہیں کرتے۔ شہرِ اقتدار کی ایسی بیاقتداری، پہلے کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ ریڈ زون کی بظاہر خوبصورت عمارتیں، کھنڈروں کی مانند متروکہ املاک لگتی ہیں۔ میرے اسلام آباد کو کسی بدنظر کی نظر لگ چکی ہے۔ جون ایلیا نے ایک شعر کہا تھا، جو مجھے اپنے ملک کی حالتِ زار دیکھ کر بہت یاد آرہا ہے۔
میں بھی بہت عجیب ہوں اتنا عجیب ہوں کہ بس
خود کو تباہ کر لیا اور ملال بھی نہیں
کچھ بزرگ ماہرینِ سیاست کو اس صورتحال کا حل، روایتی صاف و شفاف الیکشن کے انعقاد کی صورت میں نظر آتا ہے تاکہ سولین نمائیندے ملک کی باگ ڈور سنبھالیں اور ہائبرڈ نظام دوبارہ بحال ہو سکے جسے خان صاحب کی غیر روائیتی سیاست نے بہت بری طرح بے نقاب کردیا تھا۔ چند اکابرین ایسے بھی موجود ہیں جو کھل کر ہائبرڈ نظام پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ فراز، جالب اور فیض کی انقلابی شاعری اور سوشل میڈیا کی حد تک تو جنگِ آزادی بامِ عروج کو چھو رہی ہے۔ حقیقتا کیا ہوتا ہے، اس کا فیصلہ بھی شاید جلد ہونے والا ہے کیونکہ عام آدمی کا صبر شاید اب جواب دے رہا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here