پہلی قسط
سیدی اعلیٰ حضرت، امام عشق ومحبت، عظیم المرتبت، سراپا خیروبرکت، حضرت امام شاہ احمد رضا خان علیہ الرحمتہ والرضوان کا جب تصور آتا ہے تو فوراً ہمارے سامنے فقید المثال علمی وسعت اور مفقود النظیر ذہانت کا جبل شامخ اُبھر آتا ہے۔ ربّ کائنات نے آپ کے اندر محیرالعقول ایسی ایسی صفات و دیعت فرمائی تھیں کہ انہیں دیکھنے کے بعد زبان برملا کہہ اُٹھتی ہے کہ امام احمد رضا قدس سرہ العزیز کی ذات ستودہ صفات بلاشبہ خداوند قدوس کی آیت اور رسول مکرمۖ کے معجزے کا نام ہے۔ ربّ قدیر نے آپ کو ایسی فقیدالنظر ذہانت وفطانت سے سرفراز فرمایا تھا کہ آپ نے بحمدہ تعالیٰ چار سال کی عمر میں قرآن مقدس کا ناظرہ ختم فرمایا۔ چھ سال کی عمر میں ربیع النور کے متبرک موقع پر ایک عظیم مجمع میں جہاں بڑے بڑے علماء وفضلا موجود تھے میلاد مصطفیٰ جان رحمتۖ کے موضوع پر ایسی پر مغز تقریر کی کہ عوام تو عوام علمائے کرام کی جماعت بھی عش عش کر اٹھی۔ آٹھ سال کی عمر میں عربی گرامر کی کتاب ”ہدایتہ النحو” کی جامع شرح لکھی۔ دس سال کی عمر میں علوم نقلیہ وعقلیہ کی تکمیل فرمائی اور دستار فضیلت سے نوازے گئے۔ ستار فضلیت کے دن ہی آپ کے والد گرامی حضرت مولانا نقی علی خان علیہ الرحمتہ والرضوان نے اپنے لائق وفائق شہزادے کو مسند افتا کی زینت بنایا۔ چودہ سال کی عمر میں آپ نے رضاعت سے متعلق استفتا کا انتہائی شافی جواب قلمبند فرما کر دنیا کے سامنے پہلا فتویٰ دلائل وبراہین سے مزین پیش کیا۔ چودہ سال کی عمر سے آپ کی فتویٰ نویسی کا ایسا آغاز ہوا کہ چند سالوں میں آپ نے فتاویٰ رضویہ کی شکل میں بارہ ضخیم جلدوں پر مشتمل علوم وفنون کا بے بہا خزانہ قوم کو عطا فرمایا۔ آپ کا مجموعہ فتاویٰ بلاشبہ فقہی انسائکلو پیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔
سچ کہا مبلغ خودی ڈاکٹر اقبال نے:
”ہندوستان کے دور آخر میں مولانا احمد رضا جیسا طباع اور ذہین فقیہ پیدا نہیں ہوا۔” آپ کے فتاویٰ کے چند اوراق پڑھ کر فقیہ مکتہ المکرمہ حضرت مولانا سید اسمٰعیل بے ساختہ بول پڑے تھے:
”واللہ اقول والحق اقول انہ لورأھا ابو حنیفة النعمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاقرت عینہ ولجعل مولفھا من جملة الاصحاب۔” یعنی بخدا میں کہتا ہوں کہ اگر حضرت امام ابوحنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اعلیٰ حضرت کے اس فتویٰ کو ملاحظہ فرماتے تو ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجاتیں اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کرلیتے۔
٭٭٭