پاکستانی کونسلیٹ، سُست روی یا تعصبیت؟

0
37

پچھلے50سالوں میں ہمارا آنا جانا، کاغذات کی تصدیق سے پاسپورٹ بنوانے کے لئے رہا اسکے علاوہ پاکستان کے لئے ویزہ کی حصولی کے لئے رہا جب امریکہ کے شہری بن گئے۔ اور جب بھی وہاں گئے کونسلیٹ میں تعینات مرد اور خواتین جس میں حجاب والی ابھی شامل ہیں سے واسطہ پڑا اور انکے رویئے پر افسوس ہوا کہ یہاں آکر بھی وہ کچھ نہیں سیکھتے۔ اور اسلامی قدروں کے منافق راستے پر ہوتے ہیں اور یہ رویئے پچھلے دس پندرہ سالوں میں ناقابل برداشت ہوچکے ہیں۔ کونسلر سے لے کر وائس(ڈپٹی) کونسلر اور نیچے سروس ونڈو کے پیچھے شجر ممنوع کی مانند بت بنے افراد جن کے چہروں پر پھٹکار ہی دیکھنے کو ملی کبھی احتجاج نہیں کیا اور اس سے کرتے آئیں پہلے بتاتے چلیں ہمارا کن کونسلر سے واسطہ پڑا ایک عام پاکستانی امریکن شہری کے طور پر بہت پہلے ایک کونسلر جنرل ہوا کرتے تھے فقیر محمد صاحب ایک بار ان سے قبرستان میں ملااقت ہوئی اور انہوں نے عام سطح پر آکر بات کی لگا ان کے رویئے میں شرافت تھی بولے کوئی بھی شکایت ہو تو مجھ سے ملیں اور کارڈ دیا۔ لیکن اس کی ضرورت نہ پڑی۔ اس کے بعد راجہ اعجاز احمد کونسلر بن کر آئے ہم نے پاکستانی ویزا کے لئے دوسروں کی طرح اپلائی کیا۔ اس وقت کے مطابق یہ تھا کہ آپ ویزا فارم بھر میں فوٹو لگائیں اور دن کے دن ٤بجے آکر ویزا لے جائیں جب ویزا ملا(192ڈالر فیس) تو وہ صرف ایک سال کا تھا ہم نے سوچا شکایت کردیں دوسروں کا بھلا ہوگا۔ یہاں ہم نے اپنے اخبار کا نام لیا تو ہمیں اجازت مل گئی اوپر گئے انہوں نے بیٹھنے کو نہیں کہا لیکن ہم انکے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئے اور شکایت کی کہ192ڈالرز فیس میں صرف ایک سال کا ویزہ اور ہمیں صرف ایک اور بار جانا ہے عمر کا تقاضہ ہے ہنس کر بولے آپNICOکا کارڈ بنوالیں اور پیلے کاغذ پر لکھ کر سائٹ کا نام دے دیا۔ ہم نے پھر کہا ”جناب شاید آپ کو علم نہیں کہ آپ کے نیچے کا عملہ اپنی من مانی کرتا ہے ابھی پچھلے ہفتہ ہمارے دوست(نام بتایا) کو اسی فیس اور ہمارے ہی STATUSپر پانچ سال کا ویزا دیا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ کراچی اور لاہور والوں میں فرق کیا گیا ہے لیکن راجہ صاحب بولے ایسا ہو ہی نہیں سکتا۔ لیکن ایسا تھا ہمارے دوست کے کوئی دوست اندر کام کرتے تھے۔ اور یہ ان کے موڈ پر ہے کہ ویزا لینے والا ان کے من کو بھائے۔ اور ہم ناکام لوٹے۔ اسی ہفتے ایک پروگرام میں راجہ صاحب مل گئے آرگنائزر سلیم ملک کو شکایت کی تھی تو سلیم ملک نے راجہ صاحب کو پکڑا کہ یہ کالمسٹ ہیں اور انہیں ایک سال کا ویزہ دیا گیا ہے۔فرمایا کوئی بات ہی نہیں کل آجائیں5کا کیا ہم دس سال کا لگا دینگے۔ لیکن سفارش اپنے مزاج میں نہیں لہٰذا شکریہ کہا اور گھر لوٹے، ان کے بعد عائشہ ملک آئیں لیکن انکا زیادہ وقت پاکستانیوں کے کلچرل پروگراموں میں گزارا خیال رہے، کونسلر کا یہ کام بھی ہے لیکن یہاں ہمارے پاکستانی صرف فوٹو کھنچوا کر فریم کرنے کے لئے عائشہ صاحبہ کو اپنے بچے کی سالگرہ اور عقیقہ میں بھی بلاتے تھے اور وہ چلی جاتی تھیں ان سے ہمارا واسطہ نہیں پڑا سنا ہے جب ان کا ٹرانسفر ہوا تو انہوں نے ملازمت کو خیر باد کہا اور اور شادی کرلی ہماری مبارکباد انکو اور اب ان کے بعد جو آئے ہیں عامر احمد تو زئی ہیں جو نئی عارضی حکومت کے بھیجے گئے ہیں ماشا اللہ20سال کا سفارتی تجربہ ہے انگلش لٹریچر میں ماسٹرز کیا ہے پشاور یونیورسٹی سے روسی زبان کے ماہر ہیں اور ڈھاکہ اور روس میں خدمات انجام دے چکے ہیں ہم ایسے تعلیم یافتہ کونسلر کی عزت کرتے ہیں اور بتاتے چلیں کہ نیویارک میں بنی پیدا گیر شہرت پانے والی تنظیموں سے زرا فاصلہ رکھیں اور خواتین سے ہوشیار رہیں جو نمائشوں اور سیاسی پروگرام میں ان کے اردگرد ٹشو اور چائے کی پیالی میں مزید شکر ڈالنے کی ضد کریں ہم نے یہ دیکھا اور ایک پینٹنگ کی نمائش میں وہ ہی لوگ ان کے آگے پیچھے تھے جو برسوں سے دیکھ رہے ہیں اور ضروری ہے کہ وہ اپنے فرائض کو سنجیدگی سے دیکھیں اور اپنے نیچے بیٹھے عملے پر نظر رکھیں جو مال بنانے میں مصروف ہیں یا پھرONLINEویزہ کو مذاق بناتے ہیں۔ ایک مثال جس کی تصدیق کرسکتے ہیں ان کے پوچھنے پر وہ یہ ہے۔
اکتوبر٧، کو ایک خاتون جو یہاں میڈیکل کے پیشے سے وابستہ ہیں نے ویزا کے لئے فارم بھرنا شروع کیا۔ اور غیر ضروری سوال کا سامنا کرنا پڑا کہ اپنے ماں اور باپ کا پاسپورٹ نمبر دیں۔ کراچی میں کہاں رکنا ہے پتہ اور نام بتائیں میزبان کی ملازمت اور آمدنی بتائیں۔ ہم پوچھنا چاہتے ہیں کیا یہ ضروری سوال تھے جب کہ بتا دیا گیا تھا میزبان ریٹارڈ کرنل ہے اور پاسپورٹ نمبر والدین کے جب کہ والدین ساتھ نہیں رہتے جب یہ کالم بھر دیا گیا تو مزید سوال کا جواب مکمل ہوا تو معلوم کیا گیا کیس کریڈٹ کارڈ پر چارج کروائینگے۔ مطلب فارم صحیح بھرا گیا تھا ورنہ فیس(120ڈالر) کی ڈیمانڈ نہ ہوتی اس کے ساتھ اطمینان کرلیا گیا یہ ویزا مل جائیگا کتنا وقت لگے گا یہ نہیں بتایا گیا تھا۔ مگر جب آپ کسی بھی ملک میں ویزاONLINEکے لئے اپلائی کرتے ہیں تو دو سے تین دن یا اسی دن ویزہ آجاتا ہے۔ ویزا کی یہ سہولتیں اگر آپ امریکن شہری ہیں فوری ملتی ہیں حتیٰ کہ کیوبا کا ویزا آپ کوJFKکےJET BLVEٹرمنل پر صرف دو منٹ میں مل جاتا ہے لیکن دس دن گزرنے کے بعد بھی ویزا نہیں آیا اس دوران دو تین دفعہ فون کیا گیا اور آپریٹر کا جواب تھا انتظار کریں اور فون بند، دس دسمبر کا ٹکٹ اور سیٹ ریزرو تھی۔ جب وہ20نومبر تک جواب نہیں آیا تو کونسلیٹ جانے کا ارادہ کیا اور فون پر ملنے کا ٹائم مانگا، جواب تھا۔ فضول وقت ضائع نہ کریں انتظار کریں اور جب5دسمبر ہوئی اور ویزا نہیں آیا جب کہ درخواست کا اندراج16اکتوبر کو ہوچکا تھا۔ تو خاتون نے ارادہ بدل دیا اور پاکستان فون کردیا کہ وہ نہیں آرہی ہیں، ویزا نہیں ملا کرنل صاحب کو جب پتہ چلا تو حیران ہوئے اور کہا ویزا ابھی آئے گا انہوں نے جو بھی کیا نتیجہ یہ تھا کہ صرف آدھ گھنٹے سے کم میں ویزہ ای میل پر آگیا تھا۔ یہاں ہم عامر احمد اتوزئی صاحب سے پرزور اپیل کرینگے کہ ایسا کیوں ہوا یہ بھی بتاتے چلیں ویزا صرف3ماہ کا تھا شاید کونسلیٹ میں بیٹھے، اس جاہل کا کرنل صاحب کو یہ جواب تھا جس سے عامر صاحب واقف نہیں اصل نام ان خاتون کا ہم بتا سکتے ہیں وہ ہمیں اس نمبر پر فون کریں516-574-9448ہم ان سے یہ ہی کہہ سکتے ہیں کہ وہ پیشہ ور ڈپلومیٹ ہیں اور ان کا اولین فریضہ، ویزا ا ور پاسپورٹ کی فراہمی ہے باقی ہم ان پر چھوڑتے ہیں کہ وہ اپنا پاکستانیوں سے رابطہ کیسے کرتے ہیں یہاں ہم بتاتے چلیں کہ مشرق اخبار کے نمائندے خواجہ فاروق کے مقالے ”امریکہ میں سفارتی نااہلی کی طویل داستان” کا بھی جائزہ لے لیں جو عامر صاحب کے لئے مفید ہوگا، یہ صرف ویزا سے سے متعلق شکایت ہے، دوسرے پاکستانیوں کی جو خاموش ہیں۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here