بہاولپور سے تعلق رکھنے والے محمد احمد رحمانی صاحب، کی دہائی کے اوائل میں جب جامعہ پنجاب کے کیمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ سے تعلیم حاصل کر رہے تھے تو میں UET لاہور میں سول انجینئرنگ کا طالب علم تھا۔ یہ ہاسٹل نمبر ایک کے مکین تھے اور ہمارا جامعہ میں خاصا آنا جانا تھا لیکن اس کے باوجود وہاں کوئی زیادہ تعارف نہ ہو سکا۔ اس کمی کا تدارک ان دنوں ہوا جب میں ہم نیو یارک/نیوجرسی کے علاقے میں اکٹھے ہوگئے۔ اس کے بعد تو ماشااللہ خوب دوستی ہوگئی۔ دونوں فیملیز کے بچے بھی دوست بن گئے۔ کمیونٹی کے پروگراموں کے انتظامات میں بھی ہی ایک مثر ٹیم کا حصہ بنے۔ تیس سے زائد سالوں کی رفاقت چل رہی تھی کہ ان کے اکلوتے بیٹے نبیل کی شادی دبئی میں ہونا طے پا گئی۔ دسمبر کے اس آخری ہفتے میں، جب امریکہ میں تعطیلات کا سیزن ہوتا ہے تو ہماری فیملی کل نبیل بیٹے کی شادی خانہ آبادی میں شرکت کیلئے، دبئی پہنچ گئی۔ایک طرف، دبئی کے بلند و بالا بروج (Towers) اور دوسری جانب ساحل سمندر دیکھ کر بلندی اور پستی کا عجیب امتزاج نظر آتا ہے۔ صبا اکبر آبادی نے کیا خوب کہا تھا کہ!
پستی نے بلندی کو بنایا ہے حقیقت
یہ رفعت افلاک بھی محتاج زمیں ہے
امریکہ میں ایک عجوبہ گرائونڈ کینین (Grand Canyon ) کی شکل میں موجود ہے۔ چند سال پہلے اس گہری کھائی پر شیشے کا ایک پلیٹ فارم بنایا گیا ہے جس پر چلتے ہوئے آپ نیچے کئی سو میٹر گہرائی دیکھتے ہیں تو چکر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ تقریبا اسی تصور کو سامنے رکھتے ہوئے دبئی والوں نے ایک عمارت فریم (Frame) کے نام سے تیار کی ہے۔ دو ستونوں کے درمیان ایک شیشے کے بنے ہوئے پل پر چلتے ہوئے آپ ڈیڑھ سو میٹر نیچے دیکھتے ہیں تو بلندی اور پستی کا عجیب امتزاج سامنے آجاتا ہے۔ میں نے بھی آج اسی شیشے والے فرش پر چلتے ہوئے نیچے دیکھا تو سڑک پر چلتے ہوئے لوگ بہت چھوٹے لگے۔ یاسر شاہ صاحب کے ایک شعر کے لحاظ سے تو یہ ایک جرم لگتا ہے لیکن ظاہر ہے میرے دیکھنے کا انداز تو بالکل مختلف تھا۔ شاہ صاحب کا شعر بہرحال کچھ اس طرح سے ہے کہ:
جس بلندی سے لوگ چھوٹے لگیں
وہ بلندی بھی شاہ پستی ہے
بلندی اور پستی کے اس گورکھ دھندے سے باہر نکلے اور لنچ کیلئے ایک ریسٹورانٹ Dennys پہنچے ہی تھے کہ دلہا میاں بنفسِ نفیس ہمیں ملنے کیلئے وہاں پہنچ گئے۔ ویسے تو یہ ایک امریکی نژاد ریسٹورانٹ ہے لیکن اسٹاف کے لوگ پاکستانی نکلے۔ ہماری ٹیبل کا ویٹر ملتان سے تھا۔ حسبِِ عادت، اس سے گپ شپ شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ ہمیں نبیل کی Entertainer کی ممبرشپ کی وجہ سے پچیس فیصد ڈسکانٹ مل جائے گا۔ تھوڑی سی بات آگے بڑھی اور اسٹاف کو جب ہمارے میانوالی سے ہونے کا پتہ چلا تو خان صاحب کے گرائیں ہونے کی وجہ سے انہوں نے سو فیصد ڈسکانٹ کی آفر کردی۔ خیر وہ آفر تو ہم نے قبول نہ کی لیکن اندازہ ہوا کہ دبئی کے پاکستانیوں میں بھی ہوا کا رخ کس طرف چل رہا ہے۔پچھلے سال دبئی میں ایک بہت بڑی نمائش Expo کا اہتمام کیا گیا تھا۔ دنیا بھر سے ہزاروں لوگوں نے اس میں شرکت کی تھی۔ نبیل بیٹے کی رہنمائی میں ہم نے اس نمائش کی باقیات دیکھنے میں شام گزاری۔ کووڈ کی وجہ سے اس Expo کی حاضری تو توقع سے کم رہی تھی لیکن جس اہتمام کے ساتھ اس نمائش کیلئے انفرا سٹرکچر بنایا گیا تھا، وہ حیرت انگیز ہے۔
عربستان کی سیر کا آج دوسرا دن اختتام پذیر ہونے لگا تو اندازہ ہوا کہ یہاں بلندی و پستی کا مسئلہ اونچی نیچی عمارتوں کے ساتھ ساتھ بڑے اور چھوٹے لوگوں کے درمیان بھی بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ ویسے تو یہ ملک امریکہ کی ایکسٹینشن لگتا ہے لیکن پتہ نہیں کیوں سوشل جسٹس کے امریکی اصول یہاں ابھی تک نہیں پہنچ پائے۔ اردو زبان کے شعرا نے تو اس موضوع پر بہت خوب شاعری کی ہے لیکن عربستان کی ان گلیوں میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے، آپس میں مل کر جو زبان بولتے اور سمجھتے ہیں وہ غالب و اقبال کی شاعری سمجھنے کیلئے یقینا ناکافی ہے۔ جن ممالک کے شہریوں کے ساتھ یہاں غیر مساوی سلوک روا رکھا جارہاہے ہے، انہیں ان مجبور اور مقہور شہریوں کے حقوق کیلئے ضرور آواز اٹھانی چاہئے۔ قابل باندوی صاحب نے تو بہت پہلے ہی ارشاد فرمایا تھا کہ:
پستی میں ہیں زمیں کے اونچے مکان والے
کیا بے نشاں ہوئے ہیں نام ونشان والے
نظارہ اس کے رخ کا کرتے ہیں مہرومہ بھی
دن رات دیکھتے ہیں منہ آسمان والے
ہم سے مزاج عالی اے حور کیوں ملے گا
اہلِ زمین ہیں ہم تم آسمان والے
٭٭٭