آج میرا سیاسی دلدل پر نہیں بلکہ شوبز کی معاشی دلدل کے کچھ دل خراش پہلو اُجاگر کرنے پر دل کر رہا ہے۔ بظاہر شوبز کی دُنیا اپنے اندر بڑی چمک دھمک رکھتی ہے مگر باریک بینی سے دیکھی تو اس دُنیا سے وابستہ لوگ بڑے ہی حساس اور قابل رحم ہوتے ہیں۔ میک اپ کی طرح ان کے چہروں پر مُسکراہٹیں بھی مصنوعی ہوتی ہیں۔ یہ بات بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض اوقات یہ فنکار گھروں میں عزیز واقارب کو بیمار یا مُردہ چھوڑ کر اسٹیج پر مُسکراہٹیں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ چند ایک خوش نصیب فنکاروں کو چھوڑ کر اکثر کے مالی حالات اتنے خراب ہوتے ہیں کہ گھر بنانا تو دُور کی بات ہے۔ اُن کے لیے گھر چلانا بھی مشکل ہوتا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ آج کل فنکاروں کو پورا معاوضہ نہیں دیا جاتا۔ اُلٹا نئے فنکاروں سے پیسے لے کر کام دیئے جانے کا رُحجان دیکھنے میں آرہا ہے اور تو اور بڑے بڑے لیجنڈ فنکاروں کی زندگی کے آخری ایام تو بڑے ہی دل خراش اور عبرت ناک دیکھے گئے ہیں کیونکہ ہماری مرکزی اور صوبائی حکومتیں بھی اس طرح دھیان نہیں دے رہیں جس طرح اُن کو دینا چاہیے۔ دُنیا بھر میں فنکاروں کی قدر کی جاتی ہے۔ فنکار بڑے خوشحال اور امیر ترین لوگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ ہم نے مذہب، سیاست، عدل غرضیکہ ہر فیلڈ میں ڈبل اسٹینڈرڈ بنا رکھے ہیں۔ خوبصورت چہروں کی چمک دھمک کو بڑے شوق سے دیکھتے اور سنتے ہیں مگر اُن کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ جب کہ یہ فنکار بھی ہماری طرح فیملی اور بہن بھائیوں والے ہوتے ہیں۔ بُرائی ہمارے معاشرے میں کہاں نہیں ہے۔ گلی محلے سے شہروں تک نظر دواڑئیں تو ہمیں اپنے اردگرد بہت کچھ دیکھنے کو ملے گا۔ مگر ہم اُس سے تو چشم پوشی کرلیتے ہیں۔ لیکن فنکاروں پر کچھ زیادہ فوکس کرتے ہیں کہ شاید یہ فنکار لوگ کچھ زیادہ اوپن اور بولڈ ہوتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ مجبوری انسان سے کیا کچھ نہیں کرواتی۔ مگر یہ توازل سے چلا آرہا ہے کہ کبھی کبھی ماں اپنے بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے اپنی عصمت تک دائو پر لگا دیتی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ کوئی بھی انسان پیدائشی طور پر چور ڈاکو یا بدکردار نہیں ہوتا، حالات بنا دیتے ہیں۔ میں حریم شاہ کی بات نہیں کر رہا شاید وہ بھی وینا ملک کی طرح شادی کے بعد سُدھر جائے گی۔ ہماری تاریخ اور مشاہدہ تو یہی بتاتا ہے کہ چور قطب اور ولی بنتے آئے ہیں۔
ہماری نئی نسل کو تو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب گھروں میں ٹی وی رکھنا اور دیکھنا ایک بُرائی تصور کیا جاتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ خود ہمارے گھر میں ہمارے دادا جی ہمیں ٹی وی لگانے نہیں دیتے تھے۔ مگر ہم چوری چھپے پڑوسیوں کے گھرجا کر ڈرامہ وغیرہ دیکھ لیتے تھے۔ ایک دو دفعہ میں نے دادا جی سے عرض کیا کہ ٹی وی گھر میں دیکھنا بہتر ہے کہ پڑوسیوں کے جاکر دیکھنا مگر ان کا اپنا ایک نقطہ نظر تھا۔ اسی طرح ہمارے محلے میں ایک مولوی صاحب ہوا کرتے تھے۔ جب کبھی سرراہ اُن سے ملاقات ہوتی سلام دُعا کے بعد اُن کو چھیڑنے کے لیے میں یہ خبر سُناتا کہ امریکن اَپلوllچاند پر اُتر گیا ہے تو وہ امریکہ کے ساتھ ہمیں بھی ہلکی پھُلکی گالی دیتے۔ وہ یہ ماننے کو تیار نہ تھے کہ کوئی چاند پر جاسکتا ہے اور تو اور اُس دور میں فوٹو بنوانا بھی ناجائز سمجھا جاتا تھا۔ رفتہ رفتہ وقت بدلتا گیا اور آج ہمارے بڑے بڑے علماء اکرام تصویریں تو کیا لائیو ٹی وی چینل پر بن سنور کے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ مجھے تو عصر حاضر کی ایک یہی مثبت تبدیلی نظر آتی ہے۔ ورنہ ہم اب تک کو لہو کے بیل کی طرح آنکھیں بند کرکے ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔
٭٭٭