وہ سب اپنے اپنے زمانے کے نبی تھے ، محض اپنے زمانے کے اور اپنی قوم کے نبی لیکن اب کے اللہ نے ان کو بھیجا اور انہی کے ہاتھ اپنا سندیسہ بھی بھیجا کہ”اب کوئی نہیں آئے گا “اور” اب یہ جو آ گئے ہیں تو جبرائیل بھی نہیں آئے گا “ایک روز بے برگ و بار پہاڑ کے پہلو میں غار میں جبرائیل اترے ، تنہائی میں مصروفِ فکر عبدالمطلب کے فرزند چونک پڑے ، جیسے کچھ ڈر سے گئے ، پہلی وحی کا نزول تھا۔
”اقرائ”
اور ساتھ ہی ساتھ یہ اعلان بھی تھا کہ اب آسمان سے روح القدس ، جبرائیل ، فرشتوں کے سردار کسی اور پر وحی لے کر نہیں اتریں گے۔رب نے موتیوں کی ، اور جواہرات کی اس لڑی کا امام مقرر کر دیا کہ جس کیمقتدی پہلے سے آچکے تھے ، یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تھے ـ سردار مکہ کے یتیم پوتے ، لیکن ازل تا ابد انسانیت کے فخر اور سب سے افضل اک روز ساتھی کے ساتھ مدینے کے راستے میں نکلے ، بچے کھیل رہے تھے ، اک بچہ کچھ الگ سا تھا ، زیادہ پیارا، زیادہ “سوہنا ” نبی کے قدم ٹھہر گئے ، بچہ بھی کھل اُٹھا ، آپ آگے بڑھے کہ بچے کو پکڑ لیں ، بچہ آگے کو بھاگا ، کھیل ہی کھیل میں “پکڑن پکڑائی” شروع ہو گئی اور جب یہ کھیل نانا اور نواسے کا ہو تو نواسہ ہی جیتتا ہے ۔ جانتے ہیں کیوں ؟ نانا کا جی کب چاہتا ہے کہ نواسہ ہارے پھر نواسہ نانا کو چمٹ گیا ، ساتھی روایت کرتا ہے کہ نانا نے ایک ہاتھ نواسے کی ٹھوڑی کے نیچے رکھا ، چوما اور پھر صاحب وحی نے کہا کہ جو اپنی مرضی سے نہیں بولتے “حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں ، یا اللہ تو اس سے محبت کر جو حسین سے محبت کرتا ہے ، حسین نواسوں میں سے ایک نواسہ ہے “اور پھر ان سے یوں محبت ہوئی کہ مثال نہ ملی ۔اس روز مومنوں کے امیر عمر رضی اللہ عنہ بہت مصروف تھے کہ حسین چلے آئے ، مصروفیت دیکھ کر جو پلٹے تو امیرالمومنین کو خبر ہو گئی: “حسین بیٹا کیوں واپس چل دئیے؟” سید نے کہا!”آپ مصروف جو تھے” عمر نے پلٹ کر کہا ! “ہمارے سر پر عزت کا جو تاج ہے وہ اللہ کے فضل کے بعد خاندان نبوت کی برکت سے ہی تو ہے،حسن و حسین ، کریم ابن کریم تھے نجیب ابن نجیب تھے ، اصحاب رسول سے ملنے والے اس محبت کا ، پیار کا بدلہ اس روز دیا کہ جب باغی مدینے پر چڑھ دوڑے ، خلیفہ کے گھر کا محاصرہ کر لیا ، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے مگر سختی سے اپنے ساتھیوں کو مقابلے میں اترنے سے روک دیا ، مگر حسین نہ رہ سکے ،تھے کس کے نواسے کہ جو بہادری کا استعارہ تھے ، تلوار حمائل کی ، اور سیدنا عثمان ، کہ جو ان کے خالو تھے ،جب تک سیدنا حسین اپنوں میں رہے ، اصحابِ رسول کے بیچ رہے، ماموں رہے ، مدینے میں رہے سر کا تاج تھے ، مکے میں گئے ماتھے کا جھومر ٹہرے،حجاز کی رونق تھے اہل حجاز کی جان تھے۔لیکن …! فرشتہ تو بہت پہلے آ گیا تھا ، صاحب وحی اس روز اشک بار تھے ، ایک ساتھی جو پاس آیا تو آنسو دیکھ کے تڑپ اٹھا ،” میرے حضور یہ آنسو کیسے اور کیونکر ؟”فرمایا:” پیغام بر آئے تھے ،خبر دے کر گئے کہ فرات کے کنارے خوشبو لٹ جائے گی ، حسین شیہد ہو جائیں گے، مجھے وہ مٹی دکھائی گئی کہ جہاں حسین کا لہو گرے گا ” کہا بھی یہی تھا نا کہ “حسن و حسین دنیا میں میری خوشبو ہے “سیدنا حسین عراقیوں میں چلے آئے ، کوفے کی بے وفا مٹی نے ان سے بھلا کیا وفا کرنا تھی ،ایک روز ایک کوفی عبداللہ بن عمر (رض) سے سوال کر بیٹھا کہ حالت احرام میں مچھر کو اگر مار لیا؟ بے ساختہ کہہ ُاٹھے کہ :”عراقیوں نے حسین کے خون کو بہا لیا اور تو مچھر کی فکر میں ہے ” ـکوفہ آ گیا ، خطوں کی بوریاں کھل گئیں ، لیکن کوفی بھاگ گئے خطوں والے بھاگ گئے ، صاف مکر گئے ، سید کے لیے تکلیف دہ معاملہ ہو گیا ، امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اک بار ان کو خط لکھا تھا ، ذھبی نے اپنی تاریخ میں نقل کیا ہے کہ امیر (رض) نے لکھا تھے ، “حسین ! ان عراقیوں کو آپ آزما چکے ، یہ وہی تو ہیں جنہوں نے آپ کے والد ، اور بھائی کے ساتھ بھی دھوکہ کیا تھا “اور جب سید بادشاہ کوفے کے جوار میں پہنچے تو ان کو معلوم ہو گیا کہ امیر کی بات سچ ہو گئی۔ ان کے ساتھ اہل عراق نے دھوکہ کیا ، ان کو اس روز سیدنا علی کی بات یاد آئی ہو گی کہ “معاویہ تیرے ساتھی کھرے میرے کھوٹے ہیں”کرب وبلا میں اک ہنگام تھا اور ایسے میں سیدنا حسین نے تقریر کی ، مقتل حسین کا شیعہ مصنف روایت کرتا ہے کہ سید نے فرمایا:
” ہم تمھاری مدد کو آئے ، تم نے ہم پر تلواریں سونت لیں ، تمہارا ناس ہو ، تم اس امت کے طاغوت ، حق سے منحرف ، کتاب اللہ کو پھینکنے والے ، سنتوں کو مٹانے والے اور پیغمبروں کی اولادوں کو قتل کرنے والے ہو ”
سید عرب ، جگرگوشہ رسول نے اپنے قاتلوں کی اُمت کو خبر کر دی کہ جنہوں نے پیغمبروں کی اولاد کو قتل کرنا تھا،سورج چمک رہا تھا ، تلوار چل رہی تھی نہ جانے کس کی چمک زیادہ تھی تلوار کی یا سورج کی،تلوار اٹھی ، جھکی ، چمکی ، چلی اور خوشبو لٹ گئی
…….حسین رخصت ہوئے ….
رضی اللہ تعالیٰ عنہ
٭٭٭٭٭٭