محاورا ہے ”اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی” بچپن سے لے کر اب تک سینکڑوں بار سنا اور کہا ہوگا اور جگہ جگہ مثالیں بھی دی ہونگی۔ ہم آج اس ہی الجھن میں گھیرے ہوئے ہیں کہ پاکستان کو کس جانور سے مثال دی جائے شیر، گھوڑا، گدھا، مور، باز، تو ایک جانور جو بچ گیا ہے وہ اونٹ ہے اس لئے پاکستان پر اونٹ فٹ ہے76سال پہلے پاکستان ایک تیز رفتار نسلی گھوڑا تھا لیکن گرتے گرتے وہ اونٹ بن گیا جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہوتی اور اُسے اونٹ بنانے میں ہر پاکستانی کا ہاتھ ہے۔ آرمی جنرلز، ججیز سیاست دان، پولیس اور خاص طور سے سندھ کے شرابی کبابی سیاست دان جن میں سرفہرست نام آتا ہے سند یافتہ مجرم پیشہ شرجیل میمن کا جو بے پر کی اڑاتا رہتا ہے کوسنے نہ سنے لیکن میڈیا ضرور ہاتھوں ہاتھ لے گا آج پھر وہ بے پرکی اڑانے لگے۔ منشیات اور شراب کے نشے سے وہ نکلے تو بیان دے دیا۔ ”میں کہتا آیا ہوں کہ منشیات خطرناک لعنت ہے پھر ایک پلان کے تحت جس کے نام پر یہ پیسے ہتھیائینگے بولے”منشیات سے بحالی کے سینٹر ہر ضلع میں بنانے چاہیں۔ کیا بات ہے اس سندھی سیاست دان کی جیسے جیل میں شراب کی کھلی بوتلوں کے ساتھ سپریم کورٹ کے اعلیٰ جج نے پکڑا تھا وہ چلے گئے اور بعد میں وہ بوتلیں شہید سے بھر دی گئیں۔ سندھ کی سیاست کا رنگ ہی کچھ اور ہے سارے کے سارے بدبودار ہیں۔ عورت اور مرد کی شناخت نہیں یہ بات ہم اس لئے کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنا بچپن اور جوانی سندھ میں ہی گزاری ہے لیکن سندھ ایسا نہ تھا۔ جو آج ہے ہم12سال پہلے حیدر آباد گئے تو ہمارے سندھی دوست جام ساقی سے ملاقات ہوئی وہ قاسم آباد میں رہتے تھے اور ہاری پارٹی کے صدر بھی تھے اپنے ارادوں کے پکے اور اصولوں پر چلنے والے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ نہایت ہی ایماندار شخص تھے ان کی طبیعت خراب تھی۔ اداس تھے لگتا تھا اب ان میں ہمت نہیں کہ بے ایمان لوگوں کا سامنا کریں ہم نے پوچھا کیا کہنا چاہتے ہو سندھ کے لئے جو ادب آرٹ موسیقی کا گہوارہ تھا سوچنے لگے اور بولے وڈیرہ شاہی نے سندھ کو آگ لگا دی۔ اور جو سندھ ہے وہ سامنے ہے ایسا کیوں ہے تو انکا کہنا تھا جو بات آتی ہے وہ پنجاب سے آتی ہے کہ تم اگر ایسا کرتے ہو تو ہم بھی ایسا کرینگے یعنی لوٹ مار ایسا بھی دیکھا کہ8WDکو دریائوں پر جگہ جگہ پانی کو روکنے کے لئے بند باندھنا پڑتے تھے۔ لیکن صرف کاغذ پر ہی بند باندھتے تھے۔ پھر زرداری نے آکر وہ وہ طریقے ایجاد کئے کہ پاکستان اس طرح ہوگیا۔ پہلے سندھ اونٹ بنا پھر زرداری نے پنجاب سے گٹھ جوڑ کرکے پورے ملک کو اونٹ بنا دیا۔ ہر محکمہ تباہ پر ادارہ رشوت خور یہ کام اکیلے زرداری نے نہیں کیا بلکہ اپنی بہن کو سندھ کے محکموں میں ملازمتوں کا مالک بنا دیا۔ اُدھر سے پنجاب اور ادھر سے سندھ بڑھا اور پاکستانی اونٹ بن گیا۔ جس کی کوئی کل سیدھی نہیں اس میں ایک اور پارٹی کا ہاتھ بھی شامل تھا اور وہ تھیMQMدونوں نے مل کر کام کیا۔ اور نتیجہ میں مہاجروں کا صفایا ہوگیا کہ18ویں ترمیم کے تحت انہیں داخلوں اور ملازمتوں میں داخلہ بند کر دیا گیا۔ مزے کی بات یہ کہ زرداری نے سارے کرپٹ لوگوں کو ملا لیا۔ جو اپنی من مانی کرتے رہے انکے خلاف کوئی آواز اٹھانے والا نہیں تھا اور کراچی جیسے عالیشان شہر کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ یہ سب کچھ کرنے میں قتل وغارت گری بھی ہوئی زداری نے سرکاری لوگ پالے ہوئے تھے جو اس کے حکم پر قتل کرتے تھے۔ اور اُسے روکنے والا کوئی نہ تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ نام بھولتے جارہے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے تو اس کا سہرہ جنرلز کے سر بندھتا ہے پہلے باجوہ تھے پھر عاصم منیر آگئے جو اب تک خاموشی دیکھ رہے ہیں ملک کو بکھرتا ہوا دیکھ کر کبھی کبھی جوش میں آکر اپنی پسند کے لوگوں کو جمع کرکے تقریر کر دیتے ہیں اور دھمکیاں دیتے ہیں قرآنی آیات کا حوالہ بھی دیتے ہیں اور عوام کو اسلام کا دشمن قرار دیتے ہیں۔ کسی مولوی میں ہمت نہیں کہ کھڑا ہو کر کہلائے”یہ آپ کیا کر رہے۔ ہیں اس لئے کہ سب کا حلوہ مانڈہ بندھا ہوا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو گھیر کر تقریر کرتے رہتے ہیں۔ کبھی نشے کی حالت میں ہوں تو کہہ جاتے ہیں ”میں انہیں پاکستانی نہیں مانتا” ہمیں افسوس ہوتا ہے کہ ایک شخص ایسا کیونکہ کہہ سکتا ہے چونکہ وہ خود پاکستانی نہیں ہیں تو کہونگا وہ مسلمان ہی نہیں۔ حفظ قرآن کرنے کا مطلب یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ عالم ہے۔ آج کل پاکستان کے ہر گھر میں ایک بچہ قرآن پاک حفظ کر رہا ہے لیکن کیا اُسے مطلب معلوم ہے یہ ایسا ہی ہے کہ آپ کے ہاتھ میں رومن انگلش میں کوئی کتاب ہو لیکن مطلب نہ جان سکیں۔
پہلے بھی اور آج پھر ہم کہینگے کہ ہمارے مذہبی رہنمائوں نے یہ کیوں ضروری نہیں جانا کہ عربی زبان کو سیلبس میں رکھا جائے1954میں سندھی اور فارسی زبان تھی جو بعد میں نکال دی گئی۔ اور پھر اتنی تبدیلیاں لائی گئیں کہ نصاب میں کوئی بہتر چیز شامل نہ رہی پھر برطانیہ کے زمانے کا جو نصاب اور طریقہ کار تھا وہ بدل دیا گیا جس سے بچوں کا علم سطحی ہوگیا جو بچے مالدار گھرانوں کے تھے وہ لیول پڑھنے لگے۔ لیکن ان سے پوچھا جائے کہ مالٹا کہاں ہے تو جواب زیرو ہوگا۔
ہمارے زمانے میں میٹرک میں دس مضمون تھے انگلش، جنرل سائنس حساب، جیومیٹری، الجیرہ، تاریخ جغرافیہ، اردو، کیمسٹری، فزکس کیا آج بھھی ایسا ہے؟ وقت کے ساتھ ساتھ سب ختم ہو رہا ہے اور ہمارا ملک ہر اعتبار سے لنگڑہ لولہ ہوگیا ہے جس کی مرہم پٹی کرنے والا کوئی نہیں اور آج جو حکومت ہے وہ لوٹ مار میں مصروف ہے اور کیوں نہ ہو سب کے سب سند یافتہ مجرم ہیں جن کو معافی دی گئی ہے کہ آئو اور حکومت سنبھالو تم اپنا کام کرو ہم اپنا کام کرینگے یہ ہماری آرمی کا انداز ہے جسے ہم دیکھ رہے ہیں۔
حکومت کرنے والے اول درجے کے رشوت خور ناکارہ، نااہل اور دنیا میں کیا ہور ہا ہے ناواقف ہیں وہ جاننا ہی نہیں چاہتے کسی بھی ملک کا میڈیا پوری قوم کو تربیت دیتا ہے سکھاتا ہے معلومات بڑھاتا ہے لیکن پاکستانی میڈیا جو باہر کے ملکوں کیNGO,Sکی مرہون منت ہیں معاشرے کو بگاڑنے کے لئے ایسے ایسے ڈرامے لاتے ہیں کہ منہ سے گالیاں نکلتی ہیں۔ لکھنے والے پر اور پروڈیوس کرنے والے پر اور یہ سب اے آر وائی اور جیو کرتا ہے ان کو بھی کہتے ہیں یہ چھوٹے اونٹ ہیں اور کسی کی بھی کل سیدھی نہیں۔
معاشرے میں بگاڑ اور ننگ پن لانے کے انٹرنیشنل بیوٹی مقابلہ میں باہر کی پڑھی پاکستانی لڑکیاں شریک ہو کر نام پیدا کر رہی ہیں ابھی مس گرانڈ انٹرنیشنل میں پاکستانی ماڈل روھمانے دھاک بٹھا دی جسم پر پورا لباس نہ تھا۔ انکا پورا نام رومامائیکل ہے اور یہ مقابلہ تھائی لینڈ میں ہوا تھا۔ اندازہ کرلیں اس سے پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا۔ اور جب کہ اسرائیل نے ایران تک تباہی مچا دی ہے اور وہ امریکہ کی مدد سے بلکہ شراکت سے بم برسا رہا ہے بمباری کے نتیجے میں چاروں طرف اموات اور لاشیں بکھری ہوئی ہیں کھلے میدان میں اسی تباہی کے درمیان وہاں کے ڈاکٹروں نے پر بسی کانفرنس کی ہے اور انہوں 57اسلامی ممالک کو پیغام بھیجا ہے۔ ”اے مسلمانوں اگر تم ہماری مدد کو نہیں آسکتے تو ہمارے لئے کفن ہی بھیج دو۔ کیا پاکستانی دیکھ رہے ہیں؟۔
٭٭٭٭