کبھی ایسا بھی ہوتا ہے !!!

0
33
رمضان رانا
رمضان رانا

تاریخ گواہ ہے کہ ہندوستان کی کانگریس پارٹی کی بنیاد ایک انگریز بیوو کریٹ نے رکھی تھی تاکہ کوئی سیاسی پارٹی انگریزوں کا ساتھ نہ دے پائے ،یہ وہ دور تھا کہ جب ہندوستان میں 1759 اور 1857 کی آزادی کی جنگوں کے بعد ہر طرف ہندوستان میں چھوڑ دو کا نعرہ بلند ہو رہا تھا۔ بعدازاں نئی پارٹی ہندوستان کی آزادی میں پیش پیش تھی جس کی پوری قیادت جیلوں میں بند رہی تھی۔ پاکستان میں نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کو جنرل ایوب کے سرکاری افسران نے قائم کیا تھا تاکہ طلباء کے اندر بے چینی کو روکا جاسکے ،وہی تنظیم جنرل ایوب خان کے زوال کا باعث بنی۔ اسی طرح پی ایل او کے خلاف حماس اور حزب السد نامی تنظمیں اسرائیل کی مدد سے بنائی گئیں جنہوں نے پی ایل او کی کی عملی طور پر مخالفت کی۔ حزب اللہ نے لبنان میں فلسطینی مہاجرین کے کیمپوں پر حملے کیے تھے جو آج اسرائیل کے لئے دونوں تنظیمیں وبال بن چکی ہیں۔ افغانستان میں امریکی پرانی جنگ کے لئے جہاد یا فساد لڑا گیا ،مدرسوں کے طلبا کو جہاد میں جھونکا گیا جس کے بعد روس کو افغانستان چھوڑنا پڑا تھا۔ جب سقوط کابل ہوا تو جہادیوں کے مختلف گروہ کابل پر چڑھ دوڑے جو آپس میں لڑپڑے جس کے بعد ان کی جگہ پاکستان کے تربیت یافتہ طالبان کا بل پر قابض ہوگئے جن کو ہٹانے کے لئے امریکہ کو کارپٹ بمباری کرنا پڑی ،چوبیس سال تک امریکہ کے خلاف لڑتے رہے جس کے بعد امریکہ کو افغانستان چھوڑنا پڑا تھا کہ آج ویت نام کے بعد افغانستان دوسرا ملک ہے جہاں سے امریکہ کو شکست فاش ہوئی ہے عراق میں بھی عراقی عوام کو مختلف گروہوں عرب کرد، شیعہ سنی، عیسائی میں بانٹا گیا جس سے کل کا امیر ترین ملک آج بھوک وننگ کا شکار ہوچکا ہے۔ یہ وہ عراق تھا جس کی قیادتوں نے ماضی میں برطانوی تسلط اور ان کے پٹھوں بادشاہت کو ختم کیا تھا جو آج بھکاری بن چکا ہے جس پر کربلائی مجاور قابض ہیں۔ شام میں پچھلے دنوں التحریر الشام نامی اتحاد نے گزشتہ پچاس سالہ آمریت کا خاتمہ کیا ہے جن کے دس لاکھ لوگ مارے گئے لاکھوں زخمی ہوئے لاکھوں، قیدی بنائے گئے، لاکھوں شام بدر ہوئے تھے جو آخر کار آمر وجابر حکمران بشار اللہ الاسد کوبگھانے میں کامیاب ہوئے جن پر الزام لگایا جارہا ہے کہ اس گروہی اتحاد کو امریکی، ترکی اور اسرائیلی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ جس پر سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ جب کل شامی باشندوں کو قتل کیا جارہا تھا تو اس وقت یہ طاقتیں کہاں تھیںاگر ایسا ہی ہے تو پھر اسرائیل آج ہر روز شام پر حملے کیوں کر رہا ہے جس نے موقع کا فائدہ اُٹھا کر تو لان ہائٹس پر قبضہ کرلیا ہے۔ فرض کریں ایسا ہی ہوا ہے تو ویسا بھی ہوسکتا ہے کہ کل کلاں یہی اتحاد حماس، حزب اللہ اور طالبان کی طرح مذکورہ بالا طاقتوں کے لئے وبال بن سکتا ہے۔ یقیناً شام کی حالت آج افغانستان اور عراق جیسی پیدا ہوچکی ہے جو عربوں کردوں، عادیوں، شیعہ سینوں عیسائیوں میں تقسیم ہونے کے احکامات ہیں جو سامراجی طاقتوں کے ایجنڈے میں شامل ہے مگر ان طاقتوں نے ویت نام کو شمالی اور جنوبی ویت نام یمن کو شمالی اور جنوبی یمن افغانستان کو شمالی اور جنوبی میں بانٹنے کی کوشش کی تھی جس میں یہ طاقتیں بری طرح ناکام ہوچکی ہیں اس لئے شام میں بھی عہد جدید میں امریکہ اور اسرائیل کا وہی حشر ہوگا جو ویت نام افغانستان اور فلسطین میں ہو رہا ہے۔ بحرحال اہل شام ایک طویل تاریخ کے حامل ہیں جہاں ہزاروں سالوں سے مختلف طاقتوں نے حملے کئے۔ رومنوں کو خلافت راشد کے ہاتھوں شکست فاش ملی۔ شام کو فرانسیوں کو چھوڑنا پڑا علویوں کو شام سے بھاگنا پڑا ہے لہذا آج اب دوسری کوئی طاقت شام میں زیادہ عرصہ تک نہیں ٹہر پائے گی بشرطیکہ شام کسی لسانیت، انسانیت، فرقہ واریت کا شکار نہ ہوا۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here