صدر مملکت آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ سانحہ اے پی ایس جیسے واقعات دہشت گردوں اور خوارج کا اصل چہرہ بے نقاب کرتے ہیں، پاکستانی قوم دہشت گردوں کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دے گی، دہشت گردی کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کو مشترکہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ دنیا امن کے بغیر ترقی اور خوشحالی حاصل نہیںکر سکتی اس لئے عالمی برادری کی پہلی ترجیح تنازعات کے بجائے امن اور انسانیت کو درپیش مسائل کا حل ہونا چاہئے۔ اس وقت پوری دنیا بالخصوص اسلامی ممالک دہشت گردی اور تشدد پسندی کے نشانے پر ہے۔ پاکستان کا شمار دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں ہوتا ہے۔ وزیر داخلہ محسن نقوی کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کروائی گئی رپورٹ کے مطابق جنوری 2024 سے اکتوبر 2024 تک پاکستان میں دہشت گردی کے 1566واقعات ہوئے جن میں سب سے زیادہ واقعات خیبر پختونخوا میں ہوئے جن میں 63فیصد یعنی 924میں 573سکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہوئے بلوچستان میں اس عرصے کے دوران 582واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 307جان کی بازی ہار گئے جن میں 110سکیورٹی اہلکار اور 197عام شہری شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 5سال کے مقابلے میں رواں سال پہلے دس ماہ میں سب سے زیادہ دہشت گردی کے واقعات اور اموات ہوئی ہیں۔ وزیر داخلہ نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں امن و امان کی خرابی کی چھ وجوہات بھی بیان کیں جن میں پہلی وجہ دہشت گردوں کی سرحد سے باہر کارروائیوں کی صلاحیت میں اضافہ، دوسری کالعدم ٹی ٹی پی کی سرحدی نقل و حمل میں آسانی، تیسری ٹی ٹی پی کی دوسرے دہشت گرد گروپوں سے گٹھ جوڑ میں اضافہ اور مشترکہ کارروائیاں کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اہم وجہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد امریکہ کا چھوڑا گیا خطرناک اسلحہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں حملے کرنے والے دہشت گرد گروپوں کو غیر ملکی خفیہ اداروں کی مالی اور عسکری مدد حاصل ہے اور اس کا ثبوت بھارتی وزیر کا پاکستان میں کارروائیوں میں مدد کا اعتراف ہے۔ بھارت چین کے ون بیلٹ ون روڈ انشیٹیو منصوبے میں شمولیت سے انکار کے علاوہ عالمی سطح پر سی پیک منصوبے کی مخالفت بھی کر رہا ہے۔ بھارت کیونکہ کسی طور پر سی پیک منصوبے کی تکمیل نہیں چاہتا اس لئے بلوچستان میں سی پیک منصوبوں اور چینی ماہرین پر حملے کرنے والوں کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کر رہا ہے۔ بھارت سی پیک پر حملے ہی نہیں کروا رہا بلکہ دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ذریعے پاکستان اور پاکستان کے باہر کے سرمایہ کاروں میں خوف و ہراس پیدا کرنا چاہتا ہے تاکہ پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری اور پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم ہونے سے روکا جا سکے۔ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو غیر ملکی ایجنسیوں کی مدد کے الزامات کو اس لئے بھی رد کرنا ناممکن ہے کیونکہ مختلف ممالک کے دہشت گردوں کے ساتھ مختلف ممالک میں گٹھ جوڑ شام میں حالیہ تبدیلی کے بعد کھل کر سامنے آ چکا ہے۔ شام میں اسرائیل داعش اور اس کی ہم خیال تنظیموں کو اپنے ایجنڈے کے تحت استعمال کرتا رہا ہے اسی طرح تحریر الشام کے سربراہ کو بھی عراق میں امریکہ نے پانچ سال قید رکھنے کے بعد شام میں مسلح جدوجہد کے لئے رہا کیا اور اس کی ملی اور عسکری مدد بھی کی ۔بالکل اسی طرح جس طرح سوویت یونین کے خلاف القاعدہ کو افغانستان میں امریکی سرپرستی حاصل رہی اور اہداف حاصل ہونے کے بعد امریکہ نے القاعدہ کے تعاقب میں افغانستان کو راکھ کا ڈھیر بنا دیا۔ امریکہ 5 لاکھ افغانیوں کے خون سے ہاتھ رنگنے کے بعد افغانستان سے تو نکل گیا مگر جاتے جاتے تباہ کن اسلحہ دہشت گردوں کے لئے افغانستان میں ہی چھوڑے گیا اور اب یہ اسلحہ دہشت گردوں کے ہاتھ لگ چکا ہے جو افغانستان، پاکستان یہاں تک کہ عراق اور شام میں اپنے ہم خیالوں کے ذریعے تباہی پھیلا رہے ہیں۔اسی تناظر میں دیکھا جائے تو صدر مملکت کا یہ کہنا مبنی بر انصاف ہے کہ دہشت گردی کے رہتے ہوئے دنیا ترقی کر سکتی ہے نا ہی عالمی برادری کے تعاون کے بغیر اس عفریت سے نجات آسان ہو گی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو پاکستان گزشتہ دو دھائیوں بالخصوص افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد تنہا اپنے وسائل کے ساتھ دہشت گردوں سے برسر پیکار ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی جنگ میں تین سو ارب ڈالر اور ایک لاکھ جانوں کا نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حتمی کامیابی تک لڑنے اور مقابلہ کرنے میں پرعزم ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک عالمی برادری اپنے اپنے مفادات اور ایجنڈوں کے لئے دہشت گردوں کو دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی روش ترک نہیں کرتی اس وقت تک پاکستان سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میںمکمل امن نہیں ہو سکتا۔ جب تک دہشت گردوں کو پاکستان اور افغانستان میں بھارت اور عراق اور شام میں اسرائیل کی پشت پناہی میسر ہو گی اس وقت تک دہشت گرد تنظیمیں بین الاقوامی سطح پر ایک دوسرے سے تعاون بھی جاری رکھیں گی کیونکہ ان کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے عسکری اور مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ دہشت گرد اور شدت پسند قوتوں کے باہمی تعاون کے خاتمے کے لئے عالمی برادری کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ بہتر ہو گا دنیا بھر کے امن پسند ممالک دہشت گردوں کو ریاستی معاونت کے خاتمے کے لئے مشترکہ کوششیں کریں تاکہ دہشت گردوں کی کمک ختم کی جا سکے اور پاکستان سمیت دنیا میں پائیدار امن کی راہ ہموار ہو سکے۔
٭٭٭