دل کی بیماریوں سے جوانوں میں اچانک بڑھتی اموات کی وجوہات کیا ؟

0
8

نیویارک(پاکستان نیوز) طبی ماہرین کے مطابق ملک میں شکار ہونے والے 15 فیصد افراد 25 سے 40 سال کی عمر کے ہوتے ہیں۔ آرٹس کونسل کراچی میں قومی ادارہ امراض قلب اور ڈسکورنگ ہائپر ٹینشن کے زیر اہتمام بچوں میں صحت سے متعلق آگاہی مہم کے آغاز پر تقریب سے خطاب میں طبی ماہرین نے کہا کہ قومی ادارہ برائے امراض قلب میں روزانہ 40 سے 45 افراد ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر علاج کے لیے آتے ہیں جن میں سے 15 فیصد کی عمر 25 سے 40 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ پاکستانی مردوں میں کم عمری میں ہارٹ اٹیک کی شرح بڑھتی جارہی ہے، جس کی بنیادی وجہ موٹاپا، ورزش سے اجتناب اور غیر صحت مند غذا کا استعمال ہے۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب اور ڈسکورنگ ہائپر ٹینشن کے تحت آرٹس کونسل کراچی میں بچوں اور نوجوانوں میں دل کی بیماریوں سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لیے “اچھے بچے” ڈرامہ تھیٹر کا انعقاد بھی کیا گیا۔ اسکول کے بچوں کے لیے تھیٹر پرفارمنس کا مقصد بچوں کو صحت مند طرز زندگی اپنانے اور غیر صحت مند عادات سے بچنے کے حوالے سے آگاہی فراہم کرنا تھا۔ آرٹس کونسل میں منعقدہ اس پروگرام میں کراچی کے مختلف اسکولوں کے سیکڑوں بچوں نے شرکت کی اور ڈرامہ پرفارمنس سے بھرپور لطف اٹھایا۔ قومی ادارہ برائے امراض قلب کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر طاہر صغیر نے اس موقع پر کہا کہ پاکستان میں نوجوانوں میں دل کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے، اور اس کی سب سے بڑی وجہ غیر صحت مند طرز زندگی اور ورزش کی کمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ “آج کل کے نوجوان جسمانی سرگرمیوں سے دور ہوتے جا رہے ہیں، اسکولز میں کھیلنے کے میدان ختم ہو چکے ہیں، اور بچے گاڑیوں اور جدید سہولیات کی وجہ سے جسمانی مشقت سے دور ہو گئے ہیں۔” ڈاکٹر طاہر صغر نے مزید کہا کہ پاکستان دنیا میں شوگر کے نوجوان مریضوں کی سب سے بڑی تعداد والا ملک بن چکا ہے، جہاں 25 سال کی عمر میں ہی شوگر کی تشخیص ہو رہی ہے، اور شوگر کا دل کی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے جو تشویش کا باعث ہے۔ ڈاکٹر خاور کاظمی، سربراہ پری وینٹو کارڈیالوجی نے کہا کہ بچوں کو بچپن سے ہی دل کی بیماریوں سے بچنے کے لیے صحت مند عادات اپنانے کی ترغیب دینا ہوگی۔ “ہمیں اسکولوں اور کمیونٹی کی سطح پر بچوں میں یہ شعور پیدا کرنا ہوگا کہ ورزش اور متوازن غذا کتنی اہم ہے تاکہ دل کی بیماریوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکا جا سکے،” ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here