20سال سے مسلط افغانستان میں امریکہ ،نیٹو اور امریکی انتظامیہ کی کٹھ پتلی حکومتوں کو طالبان نے بالا خر کابل کو بھی اپنے زیر نگیں کرکے افغانستان سے قابضین کو چلتا کردیا ۔واضح رہے کہ دو عشروں قبل امریکہ نے ملا عمر کی زیر قیادت طالبان کی حکومت کو تاراج کرکے مشرقی اتحاد کے رشید دوستم کی کٹھ پتلی حکومت بنائی اور امریکی ونیٹو افواج کے ذریعے اسامہ بن لادن کی حوالگی کی آڑ میں افغانستان کو فتح کر نے کے زعم میں پورے ملک کو کھنڈر بنا کر رکھ دیا۔ بش سے لے کر اوبامہ تک ہردور کی امریکہ انتظامیہ کو یقین تھا کہ وہ کٹھ پتلی حکومتوں کے ذریعے نہ صرف افغانستان پر قابض رہیں گے بلکہ عالمی معاشی برتری کی جنگ میں چین کی بڑھتی ہو ئی معاشی ترقی کو بھی کنٹرول کرسکیں گے۔خطے میں امریکی مفادات کو بڑھانے کیلئے بھارت کو اسکی عددی طاقت اور معاشی منڈی ہونے کے ناطے امریکہ نے اپنا حلیف اور اسٹریٹجک پارٹنر بنایا ہوا تھا جونہ صرف چین کی معاشی و حر بی صلاحیت سے بر سرپیکار تھا بلکہ پاکستان کی ازلی دشمنی اور پاکستان کو خا کم بدھن ختم کرنے کے نفرت انگیز ایجنڈے پر بھی عمل پیرا تھا۔ اپنے مکروہ ایجنڈے پر بھارت کیلئے افغانستان ایک بہترین ذریعہ تھا۔چین کا ون روڈ ون بیلٹ منصوبہ سی پیک نہ صرف امریکہ کیلئے اپنی معاشی و عالمی برتری کیلئے بڑا دھچکہ تھا بلکہ بھارت کو بھی پاکستان کی معاشی ترقی کے حوالے سے ناقابل قبول تھا ،اس تمام ترصورتحال میں ا فغانستان میں جاری امریکی ٹارگٹ اور بھارت کی افغان حکومتوں و افغان ایجنسی کے توسط سے پاکستان مخالف سرگرمیوں سے پاکستان کو جس قدر جانی و مالی نقصانات کا سامنا کر نا پڑا وہ کسی سے بھی ڈھکے چھپے نہیں۔
اس تمام صورتحال میں ایسی کوئی تحریک نظر آنی تھی جو افغانستان میں امریکی و نیٹو افواج سے مزاحمت کرسکے۔افغانستان میں اپنی قومی روایات و مزاج کے مطابق جہادی اپنے لسانی وعلاقائی ٹکڑوں میں بٹے ہوئے تھے۔ شمالی اتحاد،تاجک ،ازبک اور ہزارہ اپنے علاقوں میں زمام ا ختیار سے نواز دیے گئے تھے ا ور طالبان جو افغان تھے اور جنہیں تا راج کر دیا گیا تھا خاموش نظر آتے تھے۔2014ء میں طالبان نے زور پکڑا اور امریکی و نیٹو افواج کے خلاف جہاد کا آغاز کیا۔ملا عمر کے بعد اس کے بیٹے نے طالبان کی قیادت سنبھالی اور طالبان کو مختلف شعبوں کے حوالے سے جدوجہد جاری رکھی۔امریکہ کی کٹھ پتلی حکومتوں میں ہاہمی اختلاف،اقتدار و اختیار کے جھگڑوں اور طالبان کی بڑھتی ہو ئی جدوجہد نے امریکہ اور اتحادیوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہزاروں فوجیوں کی ہلاکتوں ،مضرو بیت اور اربوں ڈالر کے ضیاع کے باوجود وہ افغانستان پر اپنا تسلط بر قرار نہیں رکھ سکتے ۔ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں طالبان سے مذاکرات کا دور شروع ہوا ،اس پیش رفت میں پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ،دوحہ میں ہونیوالے مذاکرات میں طالبان اور اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے درمیان مختلف نکات پر اتفاق اور عملی اقدامات کے ساتھ امریکی و نیٹو افواج کے انخلاء کے معاملات طے پائے ،اشرف غنی اور اسکے معاونین امیر اللہ صالح و حمد اللہ محب جیسے شیطانوں نے معاہدے کے نکات پر عمل کر نے کی بجائے اپنا اقتدار بچانے کیلئے مختلف حربے اپنائے ،نتیجتاً انہیں طالبان کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔
طالبان کے اس رد عمل کو اشرف غنی نے سنجیدہ نہیں لیا اور اس زعم میں رہا کہ امریکہ کی تربیت یافتہ افغان آرمی اور فضائی قوت دیگر افغان گروپس کے ساتھ مل کر طالبان کی پیش قدمی اور حربی اقدامات کو با آسانی روک دیں گے۔امریکی صدر جوبائیڈن بھی چار ماہ سے خوش فہمی میں رہے اور اس پر مصر رہے کہ ساڑھے تین لاکھ فوج اور فضائی قوت طالبان کی پیش رفت کو روک کر افغانستان کا دفاع کر ینگی طالبان نے اپنی اسٹریٹجی دانشمندی سے ترتیب دی اور 15اگست کو کابل پہنچ کر اپنی فتح کا اعلان کردیا اس دوران جو کچھ ہوا ،جس طرح طالبان نے مختلف علاقوں اور صوبوں پر کنٹرول حاصل کیا اسکی روداد سے ا پ سب تفصیلی طور پر آگا ہ ہیں۔جس وقت ہم سطور تحریر کر رہے ہیں اشرف غنی نائب صدر امر اللہ صالح اور پاکستان کیلئے غلیظ زبان کے مرتکب سکیورٹی ایڈوائزر حمد اللہ محب افغانستان سے اربوں ڈالر چرا کر بھاگ گئے ہیں۔عبداللہ عبداللہ اور افغان آرمی چیف جھولی بھر بھر کر اس بھگوڑے کو گالیاں اور کوسے دے رہے ہیں اب حکومت سازی کیلئے کو آر ڈی نیشن کونسل بنائی گئی ہے جو حامد کرزئی،عبداللہ عبداللہ اور گلبدین حکمت یار پر مشتمل ہے جو طالبان سے مشاورت کریگی۔
بہر حال طالبان نے افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے۔یہ اہم معرکہ کسی بھی محاذ آرائی یا خون خرابے کے بغیر تکمیل کوپہنچا۔عالمی ممالک کے وسوسوں اور خدشات خصوصاً مغربی اقوام کے تحفظات کے برعکس طالبان قیادت نے عام معافی اور تمام طبقات کے تحفظ کے اعلان کے ساتھ بیرونی دنیا خصوصی طور سے خطہ کے ممالک کے ساتھ خیر سگالی تعلقات کے عزم کے ساتھ اس یقین کا بھی اظہار کیا ہے کہ افغان سرزمین کسی کیخلاف استعمال نہیں کی جائے گی ۔طالبان قیادت نے عوام کیلئے متعدد اقدامات اور نظام کے حوالے سے سود مند اور عالمی و انسانی معیار کے مطابق طرز زندگی و ا نتظام کے نفاذ کا اعلان کیا۔مثبت بات یہ ہے کہ سابقہ خدشات کے برعکس اہم ترین عالمی طاقتوں خصوصاً چین،روس اور امریکہ جیسے ممالک نے طالبان کے اقدام کو تسلیم کرتے ہوئے خوشگوار تعلقات کا اظہار کیا ہے ۔پاکستان ترکی اور ایران کے سپورٹنگ مؤقف کے برعکس بھارت میں ماتم اورسکتے کا عالم طاری ہے اس کے 15اگست کے یوم آزادی پر طالبان کی کامیابی نے مودی حکومت ،بھارتی میڈیا اور ہندتوا کے پر چارکوں کی میا مار دی ہے اور اپنی اس ناکامی اور اربوں ڈالرز کی انوسٹمنٹ خاک میں مل جانے پر صف ماتم بچھی ہو ئی ہے۔افغانستان میں طالبان کی کامیابی تکمیل کو پہنچی حکومت سازی کا مرحلہ بھی جلد تکمیل کو پہنچ جائے گا ۔طالبان نے حکومت سازی،ریاستی،داخلی و خارجی پالیسی نکات بھی اظہار کردیا ہے ۔افغانستان کے حالات و معاملات کا بہت اثر پاکستان پر پڑنا اہم ترین ایشو ہے۔ افغانستان کے30لاکھ مہاجرین آج بھی پاکستان میں مقیم ہیں ،پاکستان افغانستان ٹریڈ اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی اور سی پیک کے تسلسل اورکامیابی کیلئے پر امن افغانستان وطن عزیز اور خطہ کیلئے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ آرمی چیف اور وزیر اعظم واضح کرچکے ہیں کہ ہماری خارجہ و معاشی پالیسی جیو اسٹریٹجک سے بڑھ کر جیو اکنامک ہے۔ اس منظر نامے میں نہ صرف متذکرہ حوالے بلکہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام سے مہاجرین کی پاکستان آمد کے حوالے سے ملکی معیشت پر بوجھ کے خدشات سامنے آتے ہیں تو دوسری جانب مہاجرین کی آڑ میں دہشتگردوں ا ور پاکستان دشمن گروپوں کی آمد کے بھی خدشات ہیں۔ٹی ٹی پی اور قوم پرست عناصر کی آمد ہمارے داخلی امن و سکون کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے ۔ گو کہ ہماری حکومت و ریاست نے تمام احتیاطی اقدامات یقینی بنائے ہیں ۔لیکن بھارت ان حالات میں جب طالبان نے انہیں دھتہ بتا دیا ہے کوئی بھی دشمنانہ اقدام کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ بھارت اب بھی امریکہ کا اسٹریٹجک حلیف ہے اور ہدف چین و پاکستان ہیں یوں تو اس بات پر بھی دنیا میں حیرت ظاہر کی جا رہی ہے کہ اس قدر سرعت سے طالبان کی کامیابی کے پس منظر کے محرکات کے ڈانڈے کہاں ملتے ہیں۔امریکہ جیسی عالمی طاقت بھی طالبان کی پیش رفت نا روک پائی۔بہرحال یہ واقع عالمی سیاسی تاریخ کے صفحات پر اہم باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ضرورت اس کی ہے ہماری ریاست ،حکومت اور دیگر سیاسی و اہم طبقات کی پیج پر ہوں اور قومی مفاد کو پیش نظر رکھیں۔