ہم اکثر محفولوں میں جاتے ہیں جہاں اکثر جملے اس طرح شروع ہوتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ہم مل جل کر رہیں، ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ آپس کے اختلافات ختم کریں۔ ہم مسلمانوں کو چاہیے کہ ایسا کریں اور ویسا کریں ۔ اکثر اسی دوران نماز کا وقت آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ ہم مسلمان نماز کیلئے نہیں اٹھتے۔ آپس میں مل جل کر رہنے پر یا آیا کہ اگر ہم واقعی مل جل کر اتحاد اور اتفاق کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں نماز کیلئے آواز اٹھانا ہو گی۔ ہم یقینا جان جائیں کہ نماز کیا ہوتی ہے کیوں پڑھی جاتی ہے ، کس طرح پڑھی جاتی ہے اور کیوں وقت پر پڑھنا ضروری ہے۔ اس دوران بولنا کیوں منع ہے، اگر چھوٹے چھوٹی ورکشاپس کا اہتمام کیا جائے مثلاً کالج، سکول یا جاب پر اہتمام ہو کہ تھوڑی سی معلومات نماز کے بارے میں اور ہمارے عقیدے کے بارے میں دے دی جائے تو یہ ایسی قوم ہے جو کبھی ہماری نماز پڑھنے پر اعتراض نہیں کرے گی بلکہ ادب اور احترام سے جگہ بنا دی جائے گی کہ یہ آپ کی نماز کی جگہ ہے۔ یہودی قوم جو اپنے مذہب کی پریکٹس کرتی ہے وہ سب مل جل کر ضرور آواز اٹھاتے ہیں اور چونکہ وہ حق پر ہوتے ہیں اس لئے ان کی آواز سنی بھی گئی ہے۔ ہم بھی صرف نماز کے لئے ہی اگر کوشش کریں تو وہ تمام لوگ جو کسی وجہ سے مجبور ہیں اور اپنی جاب پر بات نہیں کر سکتے مگر نماز پڑھنا چاہتے ہیں اور وہ لوگ بھی جنہوں نے کبھی اس لحاظ سے سوچا ہی نہیں مگر اندر ایک خواہش ضرور ہے کہ نماز وقت پر ادا کر لیتے تو کتنا اچھا تھا۔ اس جاب نے تو ہماری نمازیں ہی چھڑوا دیں۔ ایسے تمام لوگ ہمارے ایک ہونے سے مل جل کر آواز اٹھانے سے فائدہ اٹھا لیں گے۔
نیویارک ، نیو جرسی، شکاگو، ہیوسٹن میں مسلمان بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ اگر یہ مسلمان اکٹھے نمازوں کے اوقات اپنے دفتروں میں پیش کریں اور ان کی آواز سن لی جائے تووہ مسلمان بھی اس سے فائدہ اٹھا لیں گے جو کسی ایسے علاقے میں ہیں جہاں وہ اقلیتی حیثیت سے آباد ہیں اور کچھ کہتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ یوں ہم ایسے بے شمار مسلمانوں کی نماز یں ضائع ہونے سے بچا لیں گے جو چاہتے تو نہیں کہ ان کی نماز ضائع ہو مگر تھوڑے مجبور ہو جاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ایک عادت ہی بن جاتی ہے یوں وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ کب نماز کا وقت آیا اور کب چلا گیا۔
ہمیں اپنی نئی نسل کی توجہ بھی اس جانب دلانی چاہیے وہ بچے جو یہاں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے وہ بہتر طریقے سے اور خود اعتمادی سے قانون کے دائرے میں کام کرتے ہوئے ہم سب کیلئے بات کر سکتے ہیں اور یوں ہم اپنی نمازیں بچا سکتے ہیں۔ یہ چند منٹ کا ایک فریضہ ہے جو ہم کو بہت سی برائیوں سے بچا لیتا ہے۔ ہم دن بھر کام کرتے ہیں پھر سارا وقت مصروف رہتے ہیں۔ بیوی بچے، شوہر، والدین ، پڑوسی، دوست، احباب سب کے حقوق ادا کرتے تھکتے نہیں ہیں۔ بچوں کیلئے دنیا سے لڑ پڑتے ہیں۔ دوستوں کیلئے میلوں سفر طے کرتے ہیں اور ان سے ملاقات کرتے ہیں۔ پاکستان میں اپنے پیارے آباد ہیں ان کے لئے دل کھول کر پیسہ کماتے ہیں اور بھیجتے ہیں۔ نیا فرنیچر، نئی گاڑی ، نیا گھر، میری شاعری، میری کتاب، میری کالم نگاری، سب کچھ ہے ہماری زندگی میں بس نہیں ہے تو ایک چند لمحوں کی نماز نہیں ہے۔
مسجد تو بنا دی پل بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
دل اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
ایماں کی حرارت انسان سے بہت کام کروا لیتی ہے یہ آپ کے اندر توانائی پیدا کرتی ہے اور آپ اسی سے کام لے کر اپنی عبادات کو بہتر سے بہتر بنا سکتے ہیں۔