کیا ٹرمپ محصولات سیاسی سٹنٹ ہے؟
ایک مدبرانہ تجارتی حکمت عملی صدر ٹرمپ کو زیادہ طاقت ور اور بااختیار بنا سکتی ہے، ٹرمپ کے دور میں اقتصادی پالیسی حکمت کم اور جابرانہ اقدام زیادہ دکھائی دیا ہے، امریکی خاندانوں اور کارکنوں کے لیے، یہ محصولات ایک سیاسی سٹنٹ ہیں جو صنعتی پالیسی کا روپ دھار رہے ہیں۔ محصولات معاشی تبدیلی کے لیے ایک آلہ ہو سکتے ہیں لیکن انہیں درستگی کے ساتھ، بصیرت سے، رہنمائی اور جرات مندانہ سرمایہ کاری کے ساتھ جوڑا جانا چاہئے، ٹرمپ نے جواب تک اقدامات اٹھائے ہیں اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ٹیرف جنگ امریکی سرمایہ کاروں کو بھاری نقصان پہنچا رہی ہے، یہ اقدام امریکہ میں جاری مینوفیکچرنگ کی بحالی کو پریشان کر دے گا اور کاروں سے لے کر آلات تک ہر چیز کی قیمتوں میں اضافہ کرے گا جس سے کام کرنے والے خاندانوں کو سب سے زیادہ نقصان پہنچے گا۔ انتظامیہ نے حال ہی میں تمام کاروں اور آٹو پارٹس پر 25% ٹیرف کا اعلان کیا ہے جو مکمل طور پر ریاستہائے متحدہ میں نہیں بنتے ہیں جس سے اوسطاً نئی کار کی قیمت ہزاروں ڈالر تک بڑھ سکتی ہے، اس کی بجائے ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے کوئی طویل المدتی منصوبے نہیں ہیں، کوئی ماحولیاتی تحفظات نہیں ہیں، صرف افراتفری اور سینے کی دھڑکن سنائی دے رہی ہے۔”ہم نے یہ فلم پہلے دیکھی ہے” ٹرمپ کی پہلی مدت کے دوران، سٹیل اور ایلومینیم پر اسی طرح کے محصولات سے امریکی مینوفیکچرنگ کو بحال کرنے میں مدد ملنی تھی لیکن اس کی بجائے، ٹرمپ نے تکلیف دہ منفی اقدام کا انتخاب کیا۔ دھاتوں کی کم دستیابی نے ان صنعتوں پر منفی اثرات مرتب کیے جو ان پر انحصار کرتی تھیں۔ دھاتوں سے بنی اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں اور امریکی دھاتیں بنانے والوں کے پاس جدید مینوفیکچرنگ میں سرمایہ کاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔امریکی مینوفیکچرنگ دراصل اس کے بعد سے بحال ہوئی ہے، لیکن یہ بائیڈنـہیرس انتظامیہ کا افراط زر میں کمی کا ایکٹ اور دیگر اقدامات جیسے دو طرفہ انفراسٹرکچر قانون ذمہ دار تھے۔ پچھلی انتظامیہ کی تجارتی پالیسی بھی زیادہ ہوشیربا تھی،یہ صرف معاشیات کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ انصاف کے بارے میں ہے،کم آمدنی والے اور محنت کش طبقے کو گندی صنعتوں اور غیر ملکی ملازمتوں کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ امریکہ کو دوبارہ صنعتی بنانا اس بار مختلف ہوگا، ہمیں کام کرنے والے خاندانوں کے ساتھ اور ان کے لیے ایک صاف ستھری، مساوی معیشت کی ضرورت ہے۔ ہم ایسی تجارتی پالیسیاں چاہتے ہیںجواُجرتوں میں اضافہ کریں، کرہ ارض کی حفاظت کریں، اور گھریلو صنعتوں کی تعمیر نو کریں ،صحیح سمت میں ایک قدم تجارتی معاہدوں اور محصولات کے لیے ہے جو آلودگی سے نمٹنے کے لیے ہے اور کاربن بارڈر ایڈجسٹمنٹ کے طریقہ کار کو شامل کرنا ہے ،ہمیں ایک حقیقی منصوبہ کی ضرورت ہے جو لیبر اور ماحولیات کے ماہرین، مینوفیکچررز اور فرنٹ لائن کمیونٹیز کو اکٹھا کرے۔ ایک نیا صنعتی وژن تیار کرنا ہے ۔امریکہ سمیت دنیا بھر کو اس وقت تجاری، معاشی بحران کی بجائے معیشت کو پروان چڑھانے، لوگوں کے لیے نئے روزگار کی ضرورت ہے، ٹرمپ ایک واقعہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں اپنی مقبولیت کا جھنڈا گاڑھنا چاہتے ہیں تو ان کو امریکہ سے باہر نکل کر دیگر ممالک کو بھی وسیع نظر سے دیکھنا پڑے گا۔ٹرمپ کی زیادہ ٹیرف کی پالیسیاں خود امریکیوں کے لیے ہی نقصان کا باعث بن رہی ہیں، اس کی تازہ مثال آئی فونز ہیں جوکہ 80فیصد چین سے تیار ہوتے ہیں ، اگر آئی فونز پر 125فیصد ٹیکس عائد کیا جاتا تو اس کی قیمت کئی گنا بڑ ھ جاتی شاید اسی لیے ٹرمپ کو اپنے فیصلے پر یوٹرن لیتے ہوئے آئی فون سمیت دیگر ٹیکنالوجی ڈیوائسز کو ٹیرف پالیسی سے باہرنکالنا پڑا۔امریکہ میں فروخت ہونے والے ایپل کے 80 فیصد آئی فونز چین میں تیار ہوتے ہیں۔ایپل کی مصنوعات پر اس کمپنی (ایپل) کو ہونے والے منافع کا تخمینہ 40 سے 60 فیصد کے درمیان لگایا جاتا ہے۔ یعنی اگر ایپل کی کوئی ایک پراڈکٹ مارکیٹ میں 100 روپے میں فروخت ہو رہی ہے تو اس پر ایپل کمپنی کو 40 سے 60 روپے کے درمیان منافع حاصل ہوتا ہے اگر سمارٹ فونز کو 125 فیصد ٹیرف سے استثنیٰ نہ دیا جاتا تو ممکن ہے کہ عام آئی فون کے ماڈل کی قیمت ایک ہزار امریکی ڈالرز سے بڑھ کر دو ہزار امریکی ڈالرز تک پہنچ جاتی۔ ایپل کے پاس یہ آپشن بھی تھا کہ وہ ٹیرف کے نتیجے میں بڑھنے والے اخراجات کو صارفین کو منتقل کر دیتے مگر ایسی صورت میں سوال یہ ہے کہ کیا باقی دنیا ٹرمپ کی جانب سے عائد کردہ اضافی ٹیکس کو اپنی جیب سے ادا کرنے کے فیصلے کو قبول کر لیتی؟
٭٭٭