لاہور(پاکستان نیوز) اسرائیل کی غزہ پر جاری بہیمانہ مظالم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف جہاں دنیا بھر میں لوگ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کررہے ہیں، وہیں جنوبی امریکہ کے کچھ ممالک نے کھل کر اسرائیل پر تنقید کی ہے اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ایسے میں خیال آتا ہے کہ مشرق وسطی سے بہت دور واقع جنوبی امریکہ کے ممالک اسرائیل کی مخالفت کیوں کررہے ہیں اور اس تنازع پر دو ٹوک موقف کیوں اختیار کئے ہوئے ہیں۔ بولیویا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کئے، چلی اور کولمبیا نے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا۔ برازیل اور میکسیکو غزہ میں فوری جنگ بندی اور انسانی امداد پہنچانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کولمبیا کے صدر گستاووپیٹرو نے اسرائیلی حملوں کو فلسطینیوں کی نسل کشی قرار دیا اور صہیونی حکومت پر ہی تنقید کی۔ اس معاملے کا تانا بانا لاطینی یعنی جنوبی امریکہ کے متعدد ممالک کے داخلی سیاسی رجحانات میں پیوست ہے۔ اس خطے کے کئی ملکوں میں بائیں بازو کی جماعتیں اور سیاستدان بہت مضبوط رہے ہیں جو تاریخی طور پر فلسطینیوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہ سیاسی رہنما امریکی پالیسیوں سے اختلافات رکھتے ہیں اور ابتداہی سے واشنگٹن کے اثر و رسوخ سے بڑی حد تک آزاد رہے ہیں۔ دائیں بازو کے حکمران امریکہ سے قربت یا اس کے اثر وسوخ کے باعث اپنا وزن اسرائیل میں ڈالتے رہے ہیں یا پھر بعض اوقات عوامی دبائو کے باعث درمیانی راستہ اپناتے ہوئے تنازع کے پر امن حل کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ سپین کے تھنک ٹینک ایلکا نو رائل انسٹی ٹیوٹ کے مطابق لاطینی امریکی ممالک میں فلسطینی اور یہودی کمیونٹی کی بڑی تعداد آباد ہونے کے باعث وہاں مسئلہ فلسطین موضوع بحث رہتا ہے، خطے کے کچھ ممالک اسرائیل کی حمایت بھی کرتے ہیں جن میں پیراگوئے، کوسٹاریکا، گوئٹے مالا اور پاناما شامل ہیں۔2011 میں برازیل، بولیویا، یوراگوئے، ایکواڈور اور وینزویلا نے یکے بعددیگرے فلسطین کو بطور آزاد ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس عرصے میںمقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر کے معاملے پر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل میں مذاکرات ناکام ہو گئے تھے۔ جس کے بعد فلسطینی صدر نے فلسطینی ریاست کو عالمی برادری سے تسلیم کرانے کی مہم کے سلسلے میں لاطینی امریکہ کے کئی ممالک کا دورہ کیا تھا۔