خلیفہ اول بلافصل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ !!!

0
128
مفتی عبدالرحمن قمر
مفتی عبدالرحمن قمر

ہمارے اس زمانے میں غریبوں کے ہمدردوں کی کمی نہیں ہے۔ دور حاضر میں غربت وافلاس کے خاتمے کیلئے بڑی بڑی کانفرنسیں ایئرکنڈیشنڈ ہالوں میں منعقد کی جاتی ہیں۔ جس میں غربت کے خاتمے کے لئے وزرائ، سیاستدان، دانشور اور حقوق انسانی کی تنظیموں کے سربراہان کو مدعو کیا جاتا ہے۔ جو بڑے بڑے دل فریب جملوں کے ساتھ لیکچر عطا فرماتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں غریب پیروری کا حق ادا کر دیا ہے جبکہ ان کے اپنے گھروں میں پالتو کتوں کے لئے شاہی انتظام ہوتا ہے مگر خدام اور نوکروں کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ گھر کے کونے کھدرے میں جھونپڑی نما گھروں میں رکھا جاتا ہے قلیل تنخواہ بھی وقت پر ادا نہیں کی جاتی اگر تقاضا کیا جائے تو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اگر ہم سب افضل الیثر بعدالانبیاء باالحقیق خلیفہ اول بلافصل سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی سیرت کو اپنالیں تو ہمیں سمجھ میں آجائے گا۔ غریب پروری کیا ہے۔ صدیق اکبر کے بارے مشہور تھا کہ غریب پروری میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔ اور نہ ہی ان کی کی ہوئی نیکیوں کو پہنچ سکتا ہے آپ کے وصال کے بعد سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ امیرالمئومنین ہوگئے۔ آپ نے خیال فرمایا اب میرے لئے آسان ہوگا کہ میں وہ کام کروں جو مجھ سے پہلے سیدنا صدیق اکبر کیا کرتے تھے۔ میں بھی ویسے ہی غریب پروری کروں جس طرح سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کیا کرتے تھے۔ ساتھیوں نے کہا ہم نے کئی مرتبہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سامنے پہاڑ پر کھانا لے جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ چنانچہ دوسرے روز سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ نے کھانا تیار کرایا اور پہاڑ کی طرف چل دیئے پہاڑ پر پہنچ کر ادھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہیں آیا تلاش کرتے کرتے پہاڑ کی ایک کھوہ میں پہنچے جہاں ایک نابینا ذکر الہی میں مشغول تھا۔ سیدنا فاروق اعظم سمجھ گئے یہی وہ نابینا شخص ہے جس کے لئے سیدنا صدیق اکبر کھانا لے کر آیا کرتے تھے۔ آپ کو اتنی خوشی ہوئی کہ بیان سے باہر آپ نے سلام کیا۔ پوچھا کھانا لائے ہو۔ عرض کی جی ہاں کھانا ہے۔ فاروق اعظم نے نوالہ تیار کرکے نابینا میںمنہ میں ڈالا۔ نابینا نے پوچھا کہ کہا صدیق اکبر فوت ہوگئے ہیں آپ نے فرمایا ہاں میں عمر بن خطاب ہوں۔ آپ کو کیسے پتہ چلا۔ کہ صدیق اکبر فوت ہوگئے ہیں اس شخص نے کہا اس طرح کہ میرے منہ میں دانت نہیں ہیں۔ وہ لقمہ بنا کر پہلے خود چباتے تھے۔ پھر میرے منہ میں ڈالتے تھے۔ آپ نے بغیر چبائے میرے منہ میں ڈال دیا جس سے میں سمجھ گیا۔ یہ شخص صدیق اکبر ہنس کوئی اور ہے فاروق اعظم کی آنکھوں میں آنسو آگئے فرمانے لگے میں زندگی میں سیدنا صدیق اکبر سے نیکیوں میں کبھی بھی سبقت لے جانے میں کامیاب نہ ہوسکا۔ انتقال کے بعد بھی مجھے آگے نہیں بڑھنے دیا۔ جب صحابہ کرام نے کہا۔ حضور تنخواہ بہت تھوڑی ہے۔ آپ کے گھر کا خرچ کیسے چلتا ہوگا۔ حضور تھوڑی سی تنخواہ بڑھا دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ مدینہ طیبہ کے مزدوروں کی تنخواہ بڑھا دیں۔ میری تنخواہ خود بخود بڑھ جائیگی۔میں نہیں چاہتا میری تنخواہ مزدور کی تنخواہ سے زیادہ ہو۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے غیب پروری کا عملاً حق ادا کیا کہ آج تک چودہ سو سال کے بعد بھی کوئی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اللہ تعالیٰ سے راضی ہوا وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔ آج بھی مزار میں ساتھ ہیں۔(اللہ اکبر)
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here