8فروری کے انتخابات اور اہم فیصلے! !!

0
56
پیر مکرم الحق

اب محسوس ہو رہا ہے کہ آٹھ فروری کو انتخابات کا انعقاد ہونے جارہا ہے۔ تحریک انصاف پر دبائو کے باوجود انکے کافی اہم عہدیدار انتخابات کے میدان میں اتر چکے ہیں وکلاء امیدواروں کو ٹکٹ دیکر پی ٹی آئی نے پارٹی کے حق میں ایک قانونی ٹیم کو میدان میں لے آکر ایک نہایت ہی حکمت عملی کی تشکیل کی ہے۔ سردار لطیف کھوسہ اور گوہر خان کی سربراہی میں وکلا کی ایک ٹیم اپنی پارٹی کیلئے عدالتوں میں سرگرم عمل ہیں۔ جس رفتار سے ان کی جماعت پر قدغن لگائے جارہے ہیں اس سے ثابت ہو رہا ہے کہ طاقتور لوگ ان کی عوام میں حمایت سے خوفزدہ ہیں انگریزی میں کہتے ہیں ناکہEvery Actcion has a reactionہر عمل کا ردعمل ہوتا ہے اس بات کو سمجھنے کیلئے آپکا PHD یا بہت پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں آپ جب بھی اپنی کی دھار کو بند کے ذریعے روکنے کی کوشش کریں گے تو اس سے پانی کی طاقت بڑھیگی گھٹے گے نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کو سمجھنا چاہئے کہ کچھ لوگ ان کے درمیان بیٹھ کر ان سے غلط مشوروں کے ذریعے غلط فیصلے کروا رہے ہیں جس کا براہ راست فائدہ انصاف پارٹی کو ہو رہا ہے۔ وزیر درحقیقت اس جماعت کا جتنا ہوا بنایا جارہا ہے اتنی عوامی حمایت انہیں حاصل نہیں دوسری بات یہ ہے کہ عوام کو نگران حکومت نے کوئی بڑا ریلیف نہیں دے پائی ہے گمشدہ افراد کے معاملے میں کوئی قابل عمل حل نہیں سامنے آیا ہے اور جس سے عوام میں بچپن اور اضطراب پیدا ہو رہا ہے جس کا فائدہ یہ کاغذی شیر عدالتیں جنگ لڑ کر اپنے سینوں پر خود ہی بہادری کے تمغہ لگا رہے ہیں اور عوام کو یہ جھوٹا دلاسہ دے رہے ہیں۔ کہ ہم آپکی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اور نگران حکومت کے وزراء کی سیاسی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ سیاسی جماعت اپنا وزن بڑھانے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ورنہ اگر نگران حکومت بہتر حکمت عملی اپنائے اور اسٹیبلشمنٹ اور نگران حکومت مشترکہ مثبت سیاسی فیصلے کریں تو اس پارٹی کے مقدر میں شکست رکھی جاچکی ہے۔ بلوچستان میں معاملات کو بہتر طریقہ سے حل کریں تو اسکے مثبت اثرات سندھ م یں بھی نظر آئینگے پنجاب تین حصوں میں بٹ گیا ہے سیاسی طور پر وہ کسی ایک جماعت کے پیچھے نہیں۔ پختونخواہ میں جو جماعت کے پاس فنڈز زیادہ ہونگے وہ پہلی یا دوسری پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگی۔ بلوچستان سے اختر مینگل کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کا فیصلہ غلط ہے جسکے نقصانات آٹھ فروری کے بعد عیاں ہونگے۔ بلوچستان کی احتجاج کرنے والی خواتین اور بچوں پر کھلے عام پولیس تشدد نے وفاق کے خلاف سندھ بلوچستان میں نفرت میں اضافہ ہوا ہے ان پولیس افسران کو فوری گرفتار کرکے ہائیکورٹ کے جج کی سربراہی میں تحقیقات کا حکم دیا جانا چاہئے تھا اب یہ کہانی آٹھ فروری کو یا اسکے فوراً بعد ختم نہیں ہونے والی ہے۔ ناعقب اندیش فیصلہ سازوں نے اپنے ہاتھ پیر خود کاٹ دیئے ہیں اور اب حالات تیزی سے تنزلی کی طرف رواں دواں ہیں۔ آٹھ فروری کے بعد حالات مزید خرابی کی طرف جائیں گے جن کے بعد نتائج کیخلاف ایک پی این اے کی طرح کی تحریک چل پڑنے کا خدشہ ہے جس میں ایک طرف مولانا فضل الرحمن کھڑے ہونگے تو دوسری طرف سراج الحق، عدلیہ تو ویسے بھی چھٹی پر ہے اگر نہیں بھی ہوتی اور اگر مخالفانہ فیصلے کرتی تو اسے چھٹی پر بھیج دیا جاتا۔ اسٹیبلشمنٹ کو بیک وقت پنجاب اور پختونخواہ میں الجھا کر جھگڑا بلوچستان میں محاذ جنگ بنانے کا پروگرام بنایا جا رہا ہے جسے اہمیت نہیں دی جارہی ہے۔ اس باغی پارٹی کو ان بیرونی طاقتوں کی حمایت حاصل ہے جنہیں معلوم ہے کہ اگر موجودہ سازش ناکام ہوئی تو کئی دہایوں تک پاکستان کا کچھ بگاڑہ نہیں جاسکے گا۔ اسلئے فیصلہ سازوں کو ایک نہایت مشکل صورتحال کا سامنا ہے اور سوچ سمجھ کہ سندھ وبلوچستان کے دانشوروں صحافیوں اور تاجروں کو اپنے ساتھ بٹھا کر مدبرانہ فیصلہ کرنا اس نازک وقت کی اہم ضرورت ہے۔ دشمن ورنہ عیارانہ چال چل جائیگا اور مقتدر حلقہ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here