اُدھر ہندوستان ادھر پاکستان کا سفر! !!

0
42

بچپن سے لڑکپن میں آئے تو کھیلنے کا شوق اٹھا۔ یہ سندھ کا مقبول کھیل تھا جو ہر محلے میں بڑی سڑکوں پر کھیلا جاتا تھا۔ حیدر آباد سندھ اس کا مرکز تھا ہر محلے کی ٹیمیں بنتی تھیں اور پھر مقابلے ہوتے تھے۔ اور جو طاقتور ٹیم ہوتی تھی وہ چیمپئن بنتی تھی اور شہر کے لیڈر اور ڈپٹی کمشنر اس کھیل کی پذیرائی کرتی اور ان کو انعامات سے نوازتی تھی۔ لیکن یہ کھیل اور اس کا فیصلہ ایمانداری کے ساتھ میرٹ پر ہوتا تھا۔ جیتنے والی ٹیم کے لئے بقیہ ٹیمیں زندہ باد کے نعرے لگاتی تھیں وقت بدلا، حالات بدلے اور سیاست بدلی بدقسمتی سے فوج اس میں گھس آئی۔ اور پھر آج کا پاکستان بن گیا۔ جہاں طاقتور ہی اوپر رہا انگریز یہ جملہ چھوڑ کر گیاMIGHT IS RIGHTجو اس سے پہلے تھا جس کی لاٹھی اس کی بھینس دنیا بھر میں کہاوتیں ہیں جن کا ایک ہی مطلب ہے یہ کہاوتیں تجربہ کے نچوڑ سی بنتی تھیں۔ اور لوگوں اور حکمرانوں کو ڈرانے کا کام کرتی تھیں۔ اور سب سے پہلے انگریزی کہاوت کے تحت انگیزوں نے ہندوستان پر قبضہ کیا ان کی ضرورت مالی تھی۔ اور وہ ایسے ٹھنڈے ملک سے تعلق رکھتے تھے جہاں آلو اور سلاد کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ پتلی پتلی گلیاں تنگ تنگ مکان جب انہوں نے ہندوستان میں آکر وقت گزارا تو معلوم ہوا یہ سونے کی چڑیا ہے لہٰذا رال ٹپکی اور چند سو لوگوں کے ساتھ جنگی سامان سمیت پڑائو ڈال دیا۔ دو سو سال حکومت کی لیکن قبضہ کرتے ہی انہوں نے ملک کی شکل بدلنا شروع کردی۔ اور بہت کچھ دے کر روانہ ہوگئے۔ سیاست، تعلیم، نظام، کلچر عدلیہ فنون لطیفہ ہر شعبہ کو جما کر گئے۔ اُدھر انڈیا اور ادھر پاکستان مقابلہ شروع۔ اُدھر نے سب سے پہلے زمینوں کو تحویل میں لے کر کسانوں کے حوالے کیں اور عوام کو ذمہ دار بنایا۔ اور ساتھ ہی ایک قوم بنا دیا۔ سادگی پر رہے مرسیڈیز اور دوسری باہر کی کاروں کو بند کیا کوکاکولا کو بھگایا۔ اور اپنے وسائل پر کھڑے ہوگئے ٹرانسپورٹیشن کو بہتر سے بہتر بنایا سواسو کروڑ کے ملک کو تیز رفتاری اور قانون کی پاسداری سکھائی۔ اور آج اُدھر کو دیکھیں اور ادھر کو دیکھیں جائزہ لیں۔ تو لگے گا جیسے انگریز یہاں آیا ہی نہیں تھا اور اگر آیا تھا تو تباہی کرکے گیا ہے۔ جب کہ ایسا نہیں تھا انگریز نے جو اُدھر چھوڑا تھا ویسا ہی ادھر چھوڑا تھا۔ لیکن جاگیرداری، وڈیرہ شاہی، چودھراہٹ وہیں کی وہیں رہی اور پانچویں طاقت ابھر کر پاکستان پر چھا گئی وہ تھی ہماری آرمی جن کی سوچ، زوایہ فکر اور رہن سہن عام انسان سے مختلف تھا ،اس کو اور طاقت ملی آمروں کے دور میں اور یہ آمر امریکہ کی مدد سے عوام دوست کی جگہ عوام دشمن بنے۔ سیاست میں گھس آئے۔ سابقہCIAکے آفیسر بروس ریڈل نے2011میں کہا تھا۔ ”امریکہ کا پاکستان سے عشق ایک سوپ آپیرا ہے۔ امریکہ آمریت کو سپورٹ کرتا ہے اور ہر آدمی جنرل کو رشوت کھلا کر وہ کچھ کروا لیتے ہیں جو ہم چاہتے ہیں۔ امریکہ جو خود انسانی حقوق کی پابندی کرتا ہے اور دوسرے ملکوں میں اسکے خلاف عناصر سے لڑتا ہے بہترین مثال سائوتھ افریقہ نے پاکستانی آمروں کو اپنا غلام بنا کر عوام کا بڑا نقصان کیا کہ وہ ملک میں جو چاہیں کریں انہیں غرض نہیں وہ(جنرلز) اس خوف میں رہتے ہیں کہ امریکہ ناراض نہ ہوجائے وہ امریکہ کے چھوٹے چھوٹے افسر سے بات کرتے ڈرتے ہیں۔ امریکہ ایسا نہیں چاہتا کہ یہ آمر قوم کو بھوکا مار دیں اور اپنے مخالف کو اور اسکے سپورٹر کو بند کردیں امریکہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ بدنام زمانہ، نوازشریف، زرداری، اور فضل الرحمن جیسے لوگ حکومت چلائیں اور اپنے مخالف کے خلاف مل کر پارٹی کو ختم کردیں یہ امریکہ کو صحیح طور پر سمجھانے سے غافل رہے اور امریکہ نے چشم پوشی کی اور اب پاکستان پوری طرح موذیوں کے ہاتھ میں ہے۔ پہلے عمران کی حکومت کو راتوں رات ختم کرکے نامور چوروں کے حوالے ملک کردیا۔ جو ملک کو کنگال کرکے اپنے بنک بھر رہے تھے دوسرے ملکوں می محل خرید رہے تھے اور جب ان سب کو اپنے گناہ معاف کرنے کا موقعہ ملا تو جنرلز کے ساتھ مل کر وہ کچھ کیا کہ شاید اس کی خبر جنرلز کو بھی نہ ہو۔ چونکہ امریکہ عمران خان کو نہیں چاہتا تھا اور یہ تاثر بیرونی محکمہ کے نچلے درجے کے آفیسر ڈونلڈلو نے دیا تھا جس کی خبر شاید بائیڈین کو نہ ہو لہذا وہ ڈونلڈلو کو امریکہ کا صدر سمجھتے تھے۔ دوسری جانب امریکہ ڈونلڈلو کی پشت پر تھا جس نے وزارت خارجہ کو پاکستان کے اور عمران خان کے معاملے میں غلط مشورے دیئے تھے بلکہ خود مختار تھا اور گہرائی میں سوچیں تو پتہ چلے گا کہ پالیسی امریکہ کی نہ تھی بلکہ انڈیا کے توسط سے بنائی گئی پالیسی پر عمل ہو رہا تھا جس کے تحت پاکستان کو ہر طرح برباد کرنا تھا ملک کے اندر خلفشاری، دہشت گردی، مذہبی جنون، جہالت اور نفرتیں بڑھا کر انڈیا نے اپنا مقصد حل کرلیا لیکن اس سارے معاملے میں انڈیا یا امریکہ کو الزام نہیں دیا جاسکتا تمام تر ذمہ داری آرمی پر ہے۔ اور ان کے لئے اب صرف عمران سے نبٹنا ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبے میں اٹھنے والی بے چینی اور نفرت سے بھی بھرپور ہے جہاں منظور پشتین کھڑا کہتا ہے
”ہمیں مجبور نہ کرو اسلام آباد آنے پر فوج کے خلاف نعرے لگاتا ہے الزام لگاتا ہے دہشت گردGHQمیں پناہ لیتے ہیں ہم احتجاج کرتے ہیں اور تمہیں گریبان سے پکڑینگے۔ اور ایمان زہری نے کہا تھا۔”یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے” جائزہ لیں تو پتہ چلے گا سوا سال کی مدت میں جبPDMکی حکومت تھی اتنی تباہی اور بربادی نہیں آئی مہنگائی38فیصد ڑھی۔ ساڑھے اٹھارہ کھرب کا قرضہ بڑھا۔ جو عمران کے دور میں اس سے آدھا تھا ہر چیز مہنگی بہت مہنگی فیصل آباد کے نواحی علاقہ جڑاں والا کاسانحہ شرمناک اور انتظامیہ کے لئے باعث شرم ہے کہ جہاں21چرچ اور80مسیحی عوام کے گھروں کو شدت پسند مذہبی جنونوں نے آگ لگا دی اور انتظامیہ دیکھتی رہی اور اب محسن نقوی جسٹس قاضی فیض ہمدردی دکھانے گئے تھے پاکستان کی بگڑتی ہوئی صورتحال کی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ جاہل عوام نے مولویوں کے ایماء پر مسیحی ڈپٹی کمشنر کے خلاف محاذ بنایاتھا کہاں جاتا ہے ساتھ صدر پاکستان کی ٹویٹ پر ان الزام تراشی جاری ہے خواجہ آصف جاہلانہ زبان استعمال کر رہا ہے۔ ایاز میر جو صحافی نے عارف علوی کا دفاع کیا ہے۔ کہ اگر ڈاکیہ ڈاک نہ پہنچائے تو بھیجنے والے کو قصور وار مت کہو اگر آپ الیکٹرانک میڈیا پر عثمان ڈار کی والدہ کی آہ وبکاء سن لیں جو گھر کے باہر کھڑی لاچاری اور مجبوری کے عالم میں فریاد کر رہی ہیں اور ساتھ ہی شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری کے پولیس کی گرفتاری میں نعرے سن لیں تو حکمرانوں پر لعنت بھیجنے کے سوا کچھ نہیں قیدی نمبر804پر تاریخ بن رہی ہے کہ کرکٹ کے میدان کا چیمپئن تین ہسپتالوں کا بانی دو یونیورسٹیوں کو چلانے والا عمران خان جیل میں بند اللہ اللہ کر رہا ہے دیکھیں یہ آواز پہنچتی ہے یا نہیں۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here