خفیہ ہاتھ،خفیہ ادارے، خفیہ سرگرمیاں، بنانا ریپبلک جیسے ادارے، کورٹ کچہری بدمعاشوں کے ہاتھ میں ۔ ہر بڑے اداروں پر فوجی ٹولہ قابض، جمہوری کلچر کا جنازہ، تعفن شدہ لاش کی بدبو سے قوم پریشان، ریاست ہوگی ماں کے جیسی کا سلوگن صرف کتابوں تک محدودہے۔ پاکستان کے سپریم کمانڈر سے طاقتور گریڈ بائیس کا سیکرٹری ، ہر ادارے میں ایسے ہی منہ زور گھوڑے بیٹھے ہیں جن کی کرپشن اور فرعونیت نے اداروں کا ستیاناس کردیا ہے۔ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ ریاست کا سربراہ فیک صدر ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں۔ عدلیہ کا ترازو تھامے ایک کمزور اور فیک چیف جسٹس ہے جس کے فیصلوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔بیوروکریسی منتخب لوگوں کی بجائے کرپٹ مافیہ کے اشاروں پر ناچتی ہے۔فیصلے کہیں اور سے صادر ہوتے ہیں۔بیرونی ایجنٹوں نے قبضہ کر رکھا ہے ۔ صدر پاکستان عارف علوی میں اگر کوئی دم خم ہے تو ان لوگوں کو سزا دیں جنہوں نے آئینی تنازع کھڑا کیا ہے۔ عدلیہ اور فوجی اسٹبلشمنٹ نے اپنی ساکھ تباہ کرلی ہے۔انصاف اور اصول پسندی کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں۔الیکشن کمیشن بے لگام، ججز ملکی حالات سے بے پروا، جرنیل اپنی فرعونی روش پر قائم ہیں، اپوزیشن ،پی ڈی ایم اور نگران آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ملک کی سمت کا کوئی اندازہ نہیں کہ آنے والے حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ بدامنی، بے چینی ،بے سکونی اور مہنگائی نے خودکشیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ ظلم کی انتہا کردی گئی ہے۔ریاست لاوارث ۔ریاست اور سیاست کا جنازہ نکل چکا ہے، صدارت،عدالت،صحافت،سیاست اور نگرانوں کا پریشر ککر پھٹنے والا بے۔ دستور، منشور، آئین، قانون سب دا ئوپر، معیشت، معاشرت، مزدور کسان، سب بے آسرا۔جن دلال صحافیوں نے پیسے پکڑ رکھے ہیں ملکی صورتحال پر جھوٹ بولتے ہیں۔ البتہ لنچ اور ڈنر پر گزارا کرنے والے صحافی آہستہ آہستہ سچ بولنے کی کوشش کررہے ہیں۔چوروں ، بدمعاشوں اور سیاسی قابضین کے خلاف گھٹن اور عوامی نفرت کا لاوا پھٹنے کو ہے۔ طاقتور اشرافیہ ہر مخاذ پر ذلیل ورسوا ھورہی ھے اور مزید ھوگی۔ کیونکہ سارا گند اور تعفن انہی کا پیدا کرتا ہے۔فوجی بدمعاشیہ نے ملک میں سیاسی اور جمہوری کلچر کا گلہ دبایا ہے۔ ان خرامخوروں کو نہ کوئی خوف خدا ہے اور نہ ہی عوام کی مشکلات میں دلچسپی۔ سب سے زیادہ اخراجات سیکورٹی پر پیں لیکن عوام غیر مخفوظ ۔سب سے زیادہ تنخواہ ججوں کی ہے مگر کوئی انصاف نہئں ۔عام آدمی چوری کرے بیس سال سزا۔ اشرافیہ ملک لوٹ کر کھا جائے۔ وزارت عظمی انکا حق۔ہزاروں قیدی چند سو روپے کی ضمانت نہ ملنے پر جیلوں میں۔ لیکن کھربوں لوٹ کر بھاگنے والے آزاد۔ سندھ اور پنجاب میں پولیس کی فرعونیت نے انسانی حقوق کو تار تار میر دیا ہے۔ تعصب،سفاکیت اوردرندگی میں پاکستانی پولیس کا کردار اسرائیلی پولیس فورس جیسا ہے۔اس متعفن نظام ا نصاف پر تھوکنے کو جی چاہتا ہے۔جہاں انصاف بکتا ہے۔ ریاست کے بڑوں اور نظام عدل پر لکھ دی لعنت۔کہ ہم سکھوں شاہی میں جی رہے ہیں۔ ملک کو چند جرنیل چلا رہے ہیں۔ بیوروکریسی کے فرنٹ مین جرنیلوں کے چمچے ہیں۔ پولیس کیخونخوار کتے۔ جس گھر مرضی گھس جاتے ہیں۔ پاکستانی پولیس اسرائیلی پولیس جیسی جانوروں کی پولیس ہے۔ اکثریت حرام خور ہے جس کی وجہ سے یہ بدمعاش فورس کہلاتی ہے۔ انکی رگوں میں حرام خون ہے جس کی وجہ سے انسانیت کا ختم ھونا قدرتی امر ہے ۔ ملکی سوسائیٹی طعفن زدہ ہوچکی ہے۔ پاکستان سے پولیس آفیسرز آتے ہیں تو کمئونٹی کے چند شرفا جنہیں پولیس اور آرمی آفیسرز کے ساتھ تصویریں بنوانے کا شوق ہے۔ وہ ان افسران کو لڑکیاں اور شراب فراہم کرتے ہیں۔ پیر غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں جن کی اکثریت کو شراب و کباب فراہم کیا جاتا ہے۔ یہ بد کار پیر اپنی حویلیوں اور خانقاہوں میں زنا اور بدکاریوں کرتے ہیں۔یہ جعلی پیر معاشرے کا ناسور ہیں۔ جنہوں نے جہالت کی فیکٹریاں بنا رکھی ہیں۔ مریدیں کی بچیوں کو خدمت کے کیے رکھتے ہیں ۔ بدکاریوں کرتے ہیں۔ یہی ہمارا فرسودہ کلچر ہے ۔ حرام مال اور کمائی انسانوں کو جانور اور سفاک بناتی ہے۔ اخلاقیات ختم کرتی ہے۔ یہی حال آج میرے وطن کا ہے۔ اسے طلسماتی ہاتھ، طلسماتی لوگ چلا رہے ہیں۔ پیڈ میڈیا سچ نہیں بتاتا۔ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ گاربیج میڈیا کو ہیرا منڈی کے دلے میڈیا مالکان چلا رہے ہیں۔ جنکو ریٹنگ سے غرض ہے۔ ہر چینل پر اسٹبلشمنٹ کے کتے بیٹھے ہیں ۔ خرامخور لفافی صحافی جو پی ڈی ایم کے دور حکومت میں بہت بڑ بڑ کرتے تھے۔ کہتے تھے الیکشن دو سال نہیں ہونے چاہئیں۔ اب فی الحال خاموش ہیں۔ سننے میں آیا ہے کہ انہئں نئی ایجنڈے کے ساتھ نئی ہڈی ڈال دی گئی ہے۔ آئیندہ چند دنوں میں جمہوریت،اخلاقیات، آئین اور نظریہ پاکستان یاد آجائے گا۔ اور پھراپنے مالکوں کے لئے الیکشن الیکشن، جمہوریت، جمہوریت بھونکئں گے۔ ملک میں سول مارشل لا ہے۔مارشل لا نے ملک کو کیا دیا۔ آرمی اسٹبلشمنٹ بالواسطہ یا بلاواسطہ حکمرانی کر رہی ہے۔ آئین اور قانون کو چیلنج کرنا جرنیلوں کا وطیرہ ہے۔ کمزور عدلیہ کی وجہ سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ہے۔ انصاف کو روکا جاتا ہے۔اس طبقہ کی گردن میں سریا ہے۔ وڈیروں اور جاگیرداروں کی ذہنیت اور سوچ فوجی اسٹیبلشمنٹ کی رگوں میں ہے۔ یونینز پر پابندی اسی لئے ہے کہ حقیقی لیڈرشپ پیدا نہ ھوسکے۔ گزشتہ دنوں سانخہ جڑانوالہ میں جب دین کی مسندوں پر جاہل، ڈفر اور ذہنی مریض بیٹھے ہونا تو خیر برآمد ھونا مشکل جی۔ جب مساجد میں وہابیت ،خنفیت، شعیت سکھائی جائے۔جاہل علما کیطرف سے قرآن و سنت کی جگہ جہالت، پھونکیں۔ پیر شلوار، پیر گھوڑے شاہ، پیر پھونک۔ جب مساجد میں سب سے پہلے ایسی تحریروں کو بند کیا جائے جو دین کی راہ مئں رکاوٹ اور شرک ہئں۔کوئی غیر مسلم بھی ایسا عقیدہ نہیں رکھتا جو ھمارا ہے۔اخلاقیات، تمیز، تہذیب سے عاری ہیں۔جن لوگوں نے چرچز کو جلایا ہے۔ جنہوں نے اعلانات کئے ہئں ۔ انہیںن ان عبرت بنایا جائے۔ یہ جانور مہنگائی کے خلاف کیوں نہیں نکلتے۔ کرپٹ مافیا کے خلاف کیوں نہیں نکلتے۔ کیونکہ مساجد میں نفرت کی تعلیم بڑھ گئی ہے۔امریکہ اور یورپ میں بھی ایسے جاہل اور ڈفر مولوی موجود ہئں۔ میں نے گزشتہ سال ایک کالم لکھا تو ایک فرقہ پرست مولوی نے کالم کا علمی جواب دینے کی بجائے۔ مذہبی منافرت کا اظہار کیا۔ اور ایک مولانا نے مجھے اس کالم کی تردید کا کہا۔ یہ ظالم مولوی شرک سے باز رکھنے کی بات نہئں کرینگے۔ ان گستاخیوں میں یہ خود ملوث ہئں۔ چند سال پہلے ھمارے پڑوس میں ایک مسجد تعمیر ھوئی ۔ اس وقت مسجد میں قرآن اور احادیث کی کتب نہیں تھیں۔ میں نے پچاس قرآن۔ سحاح ستہ ۔ اور بیشمار کتب لا کر رکھیں ۔ انک تفاسیر اور کتابوں کو پھنکوا دیا گیا۔ ایسے درندے ، جانور اور جاہل مولوی سے آپ خیر کی توقع نہئں رکھ سکتے۔انکی محدود اور سطحی سوچ، تنگ نظری نے معاشرہ میں مذہبی تفریق کو ابھار کر اخلاقیات کا جنازہ نکالا ہے۔ انکی جیب میں نوٹ رکھنے والا اگلی صف میں جگہ پاتا ہے۔ ہمارے اندر مسلمان ھونے کے باوجود، شعیہ، سنی، وہابی کی مسلکی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہے ۔ اور پھر دیوبندی اور بریلوی۔ جب یہ ایکدوسرے کو گستاخ رسول اور مشرک سمجھتے ہیں تو مینٹلی سائیکی اور دوسرے مذاہب سے نفرت فطری عمل ہے۔ دیارغیر میں بھی مساجد کا نام مسالک کی بنیاد پر ہے ۔ وہی مائنڈ سیٹ یورپ اور امریکہ میں پاکستان سے یہاں پہنچ چکا ہے۔ منمبر رسول پر ایسے چیختے ہیں کہ جیسے انکی زندگی کا آخری خطبہ ھو۔ آواز کے اندررعب علما کی شان ہے۔ تکبر ،رعونیت کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ کیا یہ لوگ خلیفہ راشدین سے زیادہ علم اور تقوی رکھتے ہئں۔ ؟ خدا کی رحمتیں ہوں تجھ پہ سو بار سید مودودی ۔ سید مودودی کی قبر کو اللہ تعالی یقینا منور فرمائیں گے جن کی برپا کردہ تحریک جہاں دنیا بھر میں اقامت دین کا فریضہ سر انجام دے رہی ہے ۔ وہیں پر الخدمت فانڈیشن بنی نوع انسان کی خدمت میں پیش پیش ہے ۔ آج بھی بٹگرام کے علاقے میں چئیر لفٹ میں پھنسے ہوئے بچوں کو نکالنے کے لیے جب پاک فوج کے ایس ایس جی کمانڈوز کو دشواری پیش آئی تو الخدمت کے رضا کاروں کو طلب کیا گیا اور الخدمت کے رضا کار چارپائی کی ڈولی بناکر اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر اسی رسی کے ذریعے کیبل کار سے معصوم بچوں کو نکالنے کے لیے پہنچ گئے ہیں ۔ الخدمت کے یہ رضاکار شمالی علاقوں میں سیلاب متاثرہ افراد کو اسی طرح سے دریا کی موجوں سے بچا کر لائے تھے ۔ یقینا یہ رضاکار اللہ تعالی کی رضا کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں مگر یہ کیا ستائش کے مستحق نہیں ہیں ؟ آج تمام میڈیا الخدمت فانڈیشن کا نام لینے سے کیوں گھبراتا ہے ؟ کیا وطن کے ان سپوتوں کو جو 600 فٹ کی بلندی پر رات کے اندھیرے میں جنگل اور سنگلاخ پہاڑوں ،دریا کی روانی اور آکسیجن کی کمی کے باوجود اس قومی خدمت میں مصروف ہیں انہیں سیلوٹ پیش کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ اور زبان سے یہ بات نکلے بغیر نہیں رہتی۔اے قوم اگر دے تو ساتھ ہمارا ہم لوگ بدل سکتے ہیں حالات کا دھارا۔
٭٭٭