عالمی بینک نے آئندہ برس دنیا بھر میں کساد بازاری کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔کساد بازاری کے دوران شرح سود میں اضافہ ،بڑی معیشتوں کی سست روی اور معاشی لحاظ سے کمزور ممالک کے متعلق عالمی بینک کی رپورٹ میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔اس رپورٹ کے مندرجات پاکستان کے لئے فکر مندی کا باعث ہیں کہ ملک پہلے ہی معاشی بحران ٹلنے میں نہیں آ رہا ۔پچھلے چار ماہ میں حالت ابتر ہو گئی ہے ،ایسے میں عالمی بینک کی رپورٹ میں جن خدشات کی خبر دی جا رہی ہے ان سے نمٹنے کی صلاحیت نہ ہونا پاکستان کے لئے قابل توجہ ہے ۔عالمی بینک کا کہنا ہے کہ دنیا عالمی کساد بازاری کی طرف بڑھ رہی ہے کیونکہ دنیا بھر کے مرکزی بینک بیک وقت مہنگائی سے نمٹنے کے لیے شرح سود میں اضافہ کر رہے ہیں۔ بینک کی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کی تین بڑی معیشتیں ریاستہائے متحدہ امریکہ، چین اور یورو ایریا تیزی سے سست روی کا شکار ہیں، یہاں تک کہ “اگلے سال کے دوران عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف جا سکتی ہے،” 1970 کی کساد بازاری سے بحالی کے بعد عالمی معیشت ان دنوں سب سے زیادہ سست روی کا شکار ہے اور صارفین کا اعتماد گزشتہ عالمی کساد بازاری کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ تیزی سے گر چکا ہے۔ عالمی بینک کے صدر ڈیوڈ مالپاس کے مطابق “عالمی ترقی کا عمل تیزی سے سست ہو رہا ہے اور مزید سست ہونے کا امکان ہے کیونکہ مزید ممالک کساد بازاری کا شکار ہو جائیں گے،” تشویش میں اضافہ کی وجہ یہ ہے کہ یہ رجحانات کافی دیر برقرار رہیں گے،ان رجحانات کے نتائج ابھرتی ہوئی مارکیٹ اور ترقی پذیر معیشتوں کے لیے تباہ کن ہوں گے۔عالمی بینک کے مطابق کہ عالمی سطح پر شرح سود میں اضافہ اور متعلقہ پالیسی اقدامات اگلے سال تک جاری رہنے کا خدشہ ہے لیکن اس امر کے امکانات موجود ہیں کہ یہ اقدامات مہنگائی کو وبائی مرضکورونا سے پہلے کی سطح پر واپس لانے کے لیے کافی نہ ہوں۔قدم قدم آگے بڑھتا بحران مالیاتی منڈی کے ساتھ 2023 میں عالمی مجموعی گھریلو مصنوعات کی نمو کو 0.5% تک سست کر دے گا۔ایسی صورت میں صنعتوں کی پیداوار اور روزگار کے مواقع متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگرچہ بڑی معیشتوں کے پاس قرضوں کو کم کرنے، تجارتی شراکت داروں کے ساتھ متنوع تعلقات اور آئی ایم ایف کی تجویز کے مطابق موسمی شرح سود میں اضافے کا مارجن ہے تاہم پاکستان کے پاس اس عیاشی کی گنجائش نہیں۔ملک بمشکل مختلف قرض دہندگان سے نادہندہ اور دیوالیہ ہونے سے بچتا آ رہا ہے۔پاکستانی معیشت میں تجارتی شراکت داروں کو تیزی سے تبدیل کرنے کی صلاحیت کا فقدان ہے کیونکہ فیصلہ ساز زیادہ تر اپنی توجہ امریکہ اور چین کے ساتھ معاملات پر مرکوز رکھتے ہیں اور ایران و روس جیسے پابندی والے ممالک سے فائدہ اٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔جہاں تک شرح سود کا تعلق ہے، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسی ریٹ اس وقت ایک دہائی میں سب سے زیادہ یعنی15 فیصد پر ہے۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کے اعداد و شمار کے مطابق ہیڈ لائن افراط زر کی شرح 21.35 فیصد ہے۔ یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ جب حکومت کم کمائے گی تو قرضوں کی ادائیگی اور بھی مشکل ہو جائے گی ۔اخراجات پر کنٹرول کے لئے صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کے بجٹ کو قربان کر دیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں شہریوں کو مزید خطرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔پاکستان اپنے آپ کو ایک انتہائی مشکل صورتحال دیکھ رہا ہے جہاں بلند شرح سود سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کرے گی ۔ پاکستان میں مہنگائی دس سال کا ریکارڈ توڑ چکی ہے۔ مسلم لیگ اور پی پی پی کے بعد اس میںپی ٹی آئی کا دور بھی شامل ہے ۔اس دوران اجرتوں کی شرح میں مناسب اضافہ نہیں ہو سکا، نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کی قوت خرید میں نمایاں کمی واقع ہوتی گئی حالیہ دنوں آٹے جیسی بنیادی شے کے نرخ حکومت سے قابو نہیں ہو رہے حالانکہ گندم کی کاشت میں ملک اب بھی خود کفیل ہے۔ عام شہری اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے، اجناس کی کھپت میں کمی آئی ہے اور بچت عملی طور پر نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔قوت خرید میں اس کمی اور بچت نہ کرنے کی وجہ سے روزمرہ زندگی کی ضروریات کی لاگت میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ آمدن میں کمی کی وجہ سے شہری کم اشیا استعمال کرتے ہیں، یوں ریاست کو ٹیکس کی مد میںکم آمدنی حاصل ہوتی ہے۔ حکومت کی آمدن کم ہو جائے تو قرضوں کی ادائیگی بھی مشکل ہو جاتی ہے ، صحت اور تعلیم جیسے اہم شعبوں کو مالیاتی گنجائش بنانے کے لیے قربان کر دیا جاتا ہے۔ پالیسی سازوں کو آنے والے مہینوں میں اہم فیصلوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ملک انتہائی مشکل وقت سے گزر رہا ہے،حالت یہ ہے کہ وزیر اعظم خود اعتراف کرتے ہیں کہ دوست ممالک پاکستان سے بات کرنے کو تیار نہیں کہ کہیں کچھ مانگ نا لیا جائے۔ملک میں کساد بازاری عروج پر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان سود کی شرح میں مزید اضافے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔پاکستان صرف قرضوں کے ذریعے روایتی طریقوں سے معاملات چلا سکتا ہے نہ ہی بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ مطلوبہ حجم میں محصولات فراہم کر سکتا ہے ۔
٭٭٭