میزائل پروگرامز پر امریکی دوغلی پالیسی!!!

0
17

امریکہ نے بیلسٹک میزائل پروگرام کی روک تھام کے لئے 1980کے دہائی سے پالیسی اپنائی، جب 1987 میں میزائل ٹیکنالوجی کنٹرول رجیم(MTCR) کا قیام عمل میں آیا۔ یہ پالیسی دراصل سرد جنگ کے خاتمے کے بعد عالمی سطح پر اپنی اجارہ داری کو قائم رکھنے کے لئے اختیار کی گئی ۔امریکہ ایک ایسی عالمی قوت ہے جو خود کو سپرپاور سمجھتا ہے لیکن باوجود اس کے کہ امریکہ کے پاس خود ایک جدید میزائل اسلحہ کا ذخیرہ ہے، ایک پیچیدہ اسٹریٹیجک، جغرافیائی سیاسی اور سکیورٹی عوامل کا نتیجہ ہے۔ اس امر کے باوجود کہ کوئی دوسرا ملک اپنے دفاع کے لئے ایسے بیلسٹک میزائل تیار کرتا ہے تو اسے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں کہ امریکہ کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ امریکہ کی اس پالیسی کا محور اپنی قومی سلامتی کو محفوظ بنائے جانا ہے تاہم دہائیوں سے اتحادی کے طور پر رہنے والے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے ،پر ایک خود ساختہ خوف کے باعث یا دبائو میں رکھنے کے لئے پابندیاں عائد کرنا حیرانی کا باعث بنتا ہے۔امریکی عہدے داروں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ جیسے وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ کسی جنگ کی تیاری کررہا ہو اس لئے بائیڈن انتظامیہ نے جاتے جاتے ایک متنازع فیصلہ کیا ۔ امریکہ اپنی دانست میں عالمی سطح پر ہتھیاروں کے پھیلائو کو روکنے کے لئے خود کو فوقیت دیتا ہے اور اس حوالے سے خود تو تباہ کن ہتھیار بنا کر دنیا بھر میں تباہی کا باعث بن رہا ہے دوسری جانب متضاد رویئے کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ نے اس امر پر زور دیا ہے کہ یہ پابندیاں ایک وسیع تر عالمی عدم پھیلا ئوکے عہد کا حصہ ہیں۔امریکہ سمجھتا ہے کہ جدید میزائل صلاحیتوں کا پھیلا علاقائی طاقتوں کے توازن کو غیر مستحکم کر سکتا ہے حالانکہ پاکستان کا کبھی یہ ارادہ بھی نہیں کہ وہ کسی عالمی طاقت کے توازن میں بگاڑ کے لئے کسی بھی قسم کے عزائم رکھتا ہے ، حالانکہ پاکستان ،بھارت کے جارحانہ عزائم سے اپنی مملکت کو محفوظ بنانے کی کوشش کررہا ہے ۔بنیادی طور پر امریکہ کی اس قسم کی پابندیاں عالمی اثر ورسوخ میں دبائو کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ، بادی النظر میں اسے اس طرح بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ بھارت کے ساتھ امریکہ اپنے تعلقات میں وسعت چاہتا ہے اس لئے وہ بھارت کی خوشنودی کے لئے اپنے اسٹریجک پارٹنر کے تحفظات کو بھی نظر انداز کرنے سے گریز نہیں کررہااور اپنے فوجی superiority اور مختلف خطوں میں اسٹریٹیجک فائدے کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے نیشنل ڈویلپمنٹ کمپلیکسNDCاور اس سے وابستہ تین کمپنیوں پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا مقصد پاکستان کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل پروگرام میں ملوث اداروں کو نشانہ بنانا تھا۔امریکہ نے میزائل رینج پر اعتراض اُٹھایا کہ ان میزائل کی رینج اتنی زیادہ ہے کہ ان میزائلوں سے امریکہ کو بھی نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔امریکہ کا جواز ہے کہ پاکستان مبینہ طور پر بڑے قطر کے راکٹ موٹرز کی جانچ کے لیے ساز و سامان خرید رہا ہے، جو طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلز کے لیے معاون ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے ان پابندیوں کو تفریق کرنے والی اور علاقائی سکیورٹی کے لیے ممکنہ طور پر غیر مستحکم قرار دے کر ان پر سخت تنقید کی ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہ پابندیاں بھارت کے مفادات سے متاثر ہو کر پاکستان پر دبا ڈالنے کی ایک کوشش ہو سکتی ہیں۔ افغانستان کی جنگ سے نکلنے کے بعد ٹرمپ ، پھر بائیڈن انتظامیہ کا رویہ پاکستان کے لئے معاوندانہ نہیں رہا اور امریکہ نے پاکستان کے لئے جنوبی ایشیائی پالیسیوں میں مختلف معیارات اپنائے ، عمومی مثالوں میں دکھا یاگیا ہے کہ پاکستان بیشتر پابندیوں کی زد میں رہتا ہے لیکن بھارت کے خلاف چاہے وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کررہا ہو یا پھر اقلیتوں کے خلاف نسل کشی یا پھر ایٹمی پروگرام سے لے کر ،بھارت کے میزائل پروگرام پر اکثر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ باوجود اس کے کہ بھارت نے خطے میں سب سے زیادہ تباہ کن ہتھیار حاصل کئے اور امریکہ روس سمیت عالمی طاقتوں سے دفاعی نظام بھی حاصل کئے ہیں ، چین کے خلاف ایک ہوا کھڑا کرکے کبھی امریکہ سے مفادات حاصل کئے تو کبھی امریکہ کے خلاف روس سے جدید ہتھیاروں کا حصول جاری رکھا ۔ جنوبی ایشیا میں یہ پالیسیاںاس امرکی غماز ہیں کہ امریکہ بھارت کے حق میں جبکہ پاکستان کے خلاف اپنی پالیسیوں کو ترجیح دیتا ہے۔مزید ، برآں پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیاں جنوبی ایشیا میں اسٹریٹیجک عدم توازن پیدا کرتی ہیں۔ پاکستان کی صلاحیتوں پر پابندیاں عائد کر کے جبکہ بھارت کو آزاد چھوڑ دینا اس خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرے گا، جس سے علاقائی عدم استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ان پابندیوں کی ہی وجہ سے بعض ممالک اپنے میزائل پروگرامز میں خود انحصاری کی طرف راغبہوتے ہیں، جس سے نئی اور زیادہ جدید میزائل ٹیکنالوجیز کی ترقی ممکن ہوپاتی ہے جو امریکہ کے کنٹرول سے باہر ہوں گی۔پاکستان کے میزائل پروگرام پر پابندیوں کی مثال اس امر کو واضح کرتی ہے کہ اس پالیسی میں موجودچیلنجز، نہ صرف عالمی سطح پر سکیورٹی کے مسائل میں اضافہ کر سکتے ہیں بلکہ عالمی تعلقات میں بھی پیچیدگیاں پیدا کر سکتے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ دہائیوں سے مختلف اسٹریٹجک معاملات میں فرنٹ لائن اتحادی ہونے کے باوجود ، اس قسم کی پالیسی سے فطری طور پر پاکستان ، چین اور روس جیسے دیگر طاقتور ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات استوار کرنے میں دلچسپی کو بڑھائے گا، جس سے عالمی اتحادوں کی صورت حال بھی بدل سکتی ہے اور امریکہ کے اسٹریٹجک اہداف پیچیدہ ہو سکتے ہیں۔گو کہ اس قسم کی پابندیوں سے پہلے بھی پاکستان کو دبائو میں لانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے تاہم دفاعی ٹیکنالوجی کے حصول میں امریکہ پر انحصار ، اس وقت ہی کم ہو گیا تھا جب امریکہ نے ایف 16طیاروں کی رقم لینے کے باوجود مزید طیارے دینے سے انکار کیا اور اپ گریڈ کرنے کے لئے تعاون کرنے سے گریز کی راہ اختیار کی ۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here