”احترام قرآن کے تقاضے اور سانحہ جڑانوالا”

0
81

میں جڑانوالہ میں مجالس کیلئے جاتا رہا ہوں یہاں کے لوگ بڑے محبتی اور روادار ہیں۔ مسلمان اور عیسائی بھی۔ قرآن کی بے حرمتی قطعا قابل برداشت نہیں تاہم ایک شخص کی سزا پوری قوم کو دینا قطعا شرعا ًو قانوًنا جائز نہیں۔ اگر کوئی قرآن کی توہین کرتا ہے تو اسے قانون کے حوالے کیا جائے۔ ہر شخص کو حق نہیں کہ وہ سزا دے ۔ اس سے قبل خانیوال، سیالکوٹ، لاہور اور دیگر شہروں میں مسیحی بستیاں جلانے کا جرم ہو چکا ہے۔ اسلام انتہا پسندی سے منع کرتا ہے۔ اہل کتاب کے ساتھ قرآن میں اتحاد کا درس دیا گیا ہے جہاں اہل کتاب کی حکومتیں ہیں وہاں ایسے ردعمل دیکھنے میں نہیں آتے۔ البتہ مغربی ممالک میں بھی ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی مذہب کے مقدسات کی توہین پر سزا دی جائے ۔اسلام مذہب امن ہے۔پاکستان کی مسیحی برادری پر امن اور قانون کی پابند ہے اور پوپ ، ڈنمارک اور فرانس میں توہین قرآن پر پالیسی ساز بیان دے چکے ہیں۔ قرآن کی توہین کرنے والے کو سزا دلوانے کی پر امن تحریک چلانے میں کوئی قباحت نہیں ۔ تاہم 21 کلیساں اور پادریوں کے گھروں کو جلانا اور بے گناہوں کے گھروں کو نذر آتش کرنا کونسی دینی خدمت ہے۔ جو اسلام قرآن جلانے کی مذمت کرتا ہے وہ بائبل جلانے کی بھی مذمت کرتا ہے،بابری مسجد کی توہین جائز نہیں تو گرجا گھروں کا تقدس پامال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ کیا آقا کریم ۖ اس اقدام سے خوش ہونگے؟ کیا یہ سنت رسول ۖ ہے؟ کیا یہ بلاد مغرب کے عوام کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے کی بھیانک سازش نہیں ہے؟ ہم نے 9/11 کے بعد مغربی حکومتوں پر اعتراض کیا تھا کہ افراد کی سزا قوموں کو نہ دی جائے، آج یہی اشکال مشتعل ہجوم پر وارد ہو رہا ہے۔
ستم بالائے ستم ریڈیکل ملان کے نت نئے بلز کی جعلی منظوریاں ہیں، حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے سوا کچھ نہیں کرتیں۔ لا اینڈ آرڈر نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ جنگل کا قانون نافذ ہے۔ ہم قرآن کی توہین پر اللہ و رسول ۖاور مسلم اُمہ سے شرمندہ ہیں جبکہ انجیل اور گرجا گھروں کے جلانے پر اللہ و حضرت عیسیٰ علیہ اسلام و مسیحی برادری سے شرمندہ ہیں،مشتعل جماعتوں کو یہ سوچنا چاہیے کہ ایسے غیر قانونی اقدام نہ کریں جس سے پاکستانی دنیا بھر میں ایک سوالیہ نشان بن کر رہ جائیں۔ پہلے ہی ہماری کوئی وقعت نہیں ہے۔ مٹھی بھر دہشت گردوں نے ہمیں بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔بلاد مغرب میں ہمیں جو آزادی نصیب ہے اسکو سوالیہ نشان نہ بنائیں، مسیحی برادری نے مباہلہ میں رسول پاک ۖ کے خاندان کا احترام کیا تھا۔ حلب ، دیر کے راہب نے سیدانیوں کے کھلے سر ڈھانپنے کیلئے چادریں دی تھیں اور سر مبارک امام حسین علیہ کا احترام کیا تھا ۔ حالیہ پوپ نے جاکر آیت اللہ العظیمی سید علی سیستانی سے اظہار تشکر کیا ۔ کہ داعش کے مسیحی برادری پر حملوں کے وقت انہوں نے مسیحی برادری کو پناہ دلوائی۔ حکومت پاکستان قرآن اور انجیل کی توہین کرنے والوں کو قرار واقعی سزا دے اورگھر جلانے والوں کو نشان عبرت بنا دے۔ اس کڑے وقت میں ہم مسیحی برادری کے ساتھ کھڑے ہیں اور انکے بنیادی حقوق کو پامال نہیں ہونے دینگے، اللہ کریم تمام مذاہب میں فاصلے کم فرمائے اور ہر مذہب کے پیروں کو مقدسات کے احترام کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین یا رب العالمین!
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here