پاکستانی الیکشن پر اوورسیز میڈیا کا ردعمل !!!
پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات ایک مرتبہ پھر متنازع حیثیت اختیار کر گئے ہیں ،اس مرتبہ پاکستان سمیت عالمی سطح پر بھی تنظیموں اور یورپی ممالک کی جانب سے الیکشن کے غیرجانبدار ہونے اور شفاف ہونے پر شدید خدشات کا اظہار کیا گیا ، امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین سمیت عالمی تنظیموں نے عمران خان کو جیل میں قید کرنے اور پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر نکالنے کے معاملے پر شدید سوالات اٹھائے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اب تک قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو 74 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک بھر میں اب تک 54 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17 نشستیں جیت چکی ہے جبکہ درجنوں حلقوں کے انتخابی نتائج کو روک دیا گیا ہے جس پر پاکستان اور عالمی سطح پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ۔امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین اور آسٹریلیا کی جانب سے بھی پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات پر سوالات اٹھائے ہیں۔ان ممالک کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان میں ایک سیاسی جماعت کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکنے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ گیا ہے کہ ‘پاکستانی عوام کے انتخاب کے فیصلے پر پابندی لگائی گئی ہے۔ان ممالک کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ انتخابات کے روز موبائل سروسز کی بندش اور بعدازاں انتخابی نتائج میں تاخیر نے انتخابات کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ان ممالک کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ ایک جمہوری، مستحکم اور خوشحال پاکستان کی حمایت کرتے ہیں جو انسانی حقوق، میڈیا کی آزادی، آزادی اظہار رائے سمیت جمہوری اصولوں کے وعدوں کا پابند ہے۔یورپی یونین کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں پولنگ مکمل ہونے کا جائزہ لیا ہے، کئی ماہ کے التواء اور غیر یقینی صورتحال اور ایک کشیدہ سکیورٹی ماحول کے بعد انتخابی عمل مکمل ہوا جس میں پاکستانی عوام کی شرکت جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کیلئے ان کی وابستگی کو ظاہر کرتی ہے، خواتین اور دیگر اقلیتوں نے درپیش نظامی رکاوٹوں کے باوجود اپنے ووٹ کا حق استعمال کیا۔گزشتہ انتخابات کے مقابلے میں رجسٹرڈ خواتین کی بڑھتی ہوئی تعداد کا خیرمقدم کرتے ہیں، ہم کچھ امیدواروں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے، اظہار رائے پر پابندی اور انٹرنیٹ کی بندش کی مذمت کرتے ہیں، ہمیں شدید مداخلت کے الزامات کی وجہ سے ایک برابری کا میدان نہ ہونے پر افسوس ہے۔’واشنگٹن پوسٹ’ نے ایک رپورٹ میں کہا کہ الیکشن 2024 عسکریت پسندوں کے حملوں اور انتخابی عمل کے غیر منصفانہ ہونے کی شکایت کے سائے تلے ہو رہا ہے۔رپورٹ کے مطابق ملک میں گہری سیاسی تقسیم ظاہر کرتی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں ایک اتحادی حکومت اقتدار میں آئے گی۔الیکشن ماحول کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جیل میں قید سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی جماعت تحریکِ انصاف کے امیدواروں کو آزادانہ مہم چلانے کا موقع نہیں ملا جس کے سبب انتخابی عمل پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔اخبار نے لندن میں قائم تھنک ٹینک کے حوالے سے کہا کہ عمران خان کی جماعت کو توڑنے سے یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ ان انتخابات کا نتیجہ پہلے سے ہی متعین کر لیا گیا ہے۔ دوسری طرف سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے لیے راستہ صاف دکھائی دیتا ہے۔’نیو یارک ٹائمز’ نے ایک تجزیاتی رپورٹ میں کہا کہ ماہرین کی نظر میں یہ الیکشن ملکی تاریخ میں سب سے کم قابلِ اعتبار ہوں گے۔اس سلسلے میں اخبار نے مزید لکھا کہ ووٹنگ سے چند دن پہلے عمران خان، جنہیں 2022 میں وزیرِ اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا، کو دو الگ الگ فیصلوں میں مجموعی طور پر 24 سال قید کی سزا سنائی گئی۔ ‘سی این این’ نے ایک رپورٹ میں تبصرہ کیا کہ عمران خان کی الیکشن سے باہر ہونے کے بعد اب مقابلہ پاکستان کے دو سیاسی خاندانوں کے درمیان نظرآتا ہے جن میں تین بار وزیرِ اعظم رہنے والے نواز شریف اور سابق وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کے فرزند بلاول بھٹو زرداری امیدوار ہیں۔نشریاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں پی ٹی آئی کے خلاف حکومتی اقدامات اور انتخابات سے پہلے مبینہ دھاندلی کا ذکر بھی کیا ہے۔سی این این نے یہ بھی کہا کہ پاکستان کی فوج اور نگراں حکومت نے عمران خان کی جماعت کو دبانے کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔قطر کے نشریاتی ادارے ‘الجزیرہ’ نے ایک رپورٹ میں الیکشن کے دن موبائل فون اور انٹرنیٹ سروسز کی معطلی کے حوالے سے کہا کہ اس سے پاکستانی حکومت کی ساکھ کو نقصان پہنچ رہا ہے کیوں کہ لوگ آزادانہ اور منصفانہ انتخابات چاہتے ہیں۔دوسری جانب الیکشن کے بعد حکومت سازی کا عمل شروع ہو چکا ہے ، ملک کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی حکومت بنانے کے لیے متحرک ہو چکی ہیں ، جبکہ دونوں کے درمیان وزارتوں کی تقسیم اور عہدوں کی بندر بانٹ پر بھی گفتگو ہوئی ہے ، مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے ساتھ اس حوالے سے اہم ملاقات بھی کی ہے جبکہ مولانا فضل الرحمن سے رابطہ کر کے ان کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے ، مسلم لیگ ن کی جانب سے ایم کیوایم سمیت دیگر جماعتوں کو بھی حکومت بنانے کی دعوت دی گئی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن مل کر مخلوط حکومت بنا بھی لیتے ہیں تو یہ کتنا عرصہ تک چل سکتی ہے ، دونوں کے مفادات کا ٹکرائو سامنے آئے گا جبکہ دوسری طرف عمران خان جیل سے رہائی پانے کے بعد حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں ، ملک کو درپیش معاشی ، سماجی ، سیاسی چیلنجز بھی نئی حکومت کے لیے بڑا امتحان ہوں گے ، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نئی حکومت ملک کو معاشی استحکام دینے میں کامیاب ہو سکیں گی یا نہیں ۔