اسلام آبا(پاکستان نیوز) پاکستان میں سیاسی طبل جنگ بج گیا ہے ، اپوزیشن نے حکومت کو گھر بھجوانے کے لیے تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی ہے جبکہ وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن سے کسی بھی قسم کی مفاہت کرنے سے انکار کرتے ہوئے آخری گیند تک اپوزیشن کا مقابلہ کروں گا، بھاگنے والا نہیں ہوں ، وزیراعظم نے حکومتی اراکین کو ہدایت کی ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے ملنے والے پیسے کو لے کر غریبوں میں بانٹ دیں ، اپوزیشن کی جانب سے حکومتی وزرا کو 18-18کروڑ ورپے کی آفرز کی جا رہی ہیں ، پاکستان میں اچانک سیاسی محاذ آرائی کو وزیراعظم عمران خان کے دورہ روس سے بھی جوڑا جا رہا ہے کہ عالمی طاقتیں عمران خان کو سبق سکھانے کیلئے اندرونی خلفشار پیدا کر رہی ہیں ، وزیراعظم عمران خان نے اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان کے کراچی میں مرکزی دفتر کا دورہ کیا اور قیادت سے ملاقات کی ، جبکہ وزیراعظم عمران خان نے جہانگیر ترین کو پیغام بھجوایا ہے کہ وہ چوروں کا ساتھ ہر گز نہ دیں ،وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ میں مائنڈ گیم کا ماسٹر ہوں اپوزیشن کو ایسی شکست دیں گے کہ 2028تک دوبارہ نہیں اٹھ سکیں گے ،دوسری طرف اپوزیشن کا دعویٰ ہے کہ اس نے تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیے مطلوبہ نمبرز حاصل کر لیے ہیں ، اس سلسلے میں پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری نے کہا کہ عمران خان کو رہنے دیا تو نسلیں معاف کریں گی نہ قبریں، حکومت کو گھر بھیج کر دکھائیں گے ، جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف نے اپوزیشن لیڈر پنجاب حمزہ شہباز کو تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کاگرین سگنل دے دیا ہے ، وزیراعظم عمران خان کے خلاف جمع کرائی گئی تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے حکومت اور اپوزیشن نے اپنے اپنے ارکان کے لیے خصوصی حکمت عملی تیار کرلی۔ دونوں اطراف نے اپنے اپنے ارکان کے تحفظ اور انھیں عدم اعتماد کے حوالے سے پارٹی پالیسی پر عمل پیرا رہنے کے لیے پابند کردیا ہے اور اس حوالے سے باضابطہ طور پر ارکان کو آگاہ بھی کردیا گیا ہے۔ حکمران جماعت تحریک انصاف نے اپنے ارکان کو تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں نہ جانے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی کابینہ کے ایک اہم رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت نے آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت اپنے ارکان کو پابند کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد کے اجلاس کے روز ووٹنگ میں حصہ لینے کے لیے ایوان میں نہیں جائیں گے۔حکومتی ذرائع کے مطابق اس کے باوجود اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کرتا ہے اور پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو اس کے خلاف ڈیفیکشن قانون یعنی پارٹی سربراہ کے فیصلے سے انحراف کے قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، حکومت کی جانب سے صرف مشیر پارلیمانی امور ایوان میں جائیں گے جو تحریک عدم اعتماد کی رسمی کارروائی کا حصہ بنیں گے۔ آئین میں آرٹیکل 63 اے 2010 میں اٹھارھویں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔ اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکننیت استعفٰی دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوجائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نااہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے جن معاملات میں پارٹی سربراہ متعلقہ رکن کے خلاف رکنیت ختم کرنے کی کارروائی عمل میں لا سکتے ہیں ان میں وزیراعظم یا وزرائے اعلیٰ کا انتخاب، اعتماد کا ووٹ دینے یا عدم اعتماد کے خلاف ووٹ کرنے اور منی بل یا آئینی ترمیم کے بل پر ووٹنگ شامل ہیں۔ ان معاملات میں اگر کوئی پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹ دیتا ہے تو پارٹی سربراہ اپنے رکن سے وضاحت طلب کرے گا اور اس کی وضاحت سے مطمئن نہ ہونے کی صورت میں اسے منحرف قرار دے کر تحریری طور پر پریذائیڈنگ افسر اور الیکشن کمیشن کو آگاہ کرسکتے ہیں اور یہی تحریری نوٹس متعلقہ رکن کو بھی بھیجا جائے گا، پریذائیڈنگ افسر دو دن میں معاملہ چیف الیکشن کمشنر کو بھیجیں گے اور اگر وہ دو دن میں معاملہ ریفر نہیں کرتے تو وہ ریفرشدہ ہی سمجھا جائے گا۔چیف الیکشن کمشنر اسے الیکشن کمیشن کے سامنے رکھیں گے جو 30 دن مین اس پر فیصلہ کرے گا۔ انحراف ثابت ہو جانے کی صورت میں متعلقہ رکن کی اسمبلی رکنیت ختم کر کے اس کی سیٹ خالی قرار دے دی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف 30 روز میں سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی جس کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ارکان کی حاضری یقینی بنانے کے لیے بھی حکمت عملی طے کرلی ہے جس کے تحت تمام ارکان کو مختلف گروپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ایک اہم رہنما کے مطابق ‘ہر گروپ کا ایک کوآرڈینیٹر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ اسی طرح ہر گروپ کا الگ واٹس ایپ گروپ بھی تشکیل دے دیا گیا ہے۔ہر گروپ کے کوآرڈینیٹر کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ اپنے گروپ کے ارکان کی حاضری یقینی بنائے گا۔دوسری جانب حکومت یا سرکاری اداروں کی جانب سے کسی بھی رکن کے خلاف اگر کسی قسم کی کوئی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے اور اس رکن کی گرفتاری یا حراست کا کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو اس سلسلے میں بھی منصوبہ بندی طے کرلی گئی ہے۔وہ رکن سب سے پہلے تو اپنے گروپ کے کوآرڈینیٹر کو بتائے گا۔ ضرورت پڑنے پر جمعیت علمائے اسلام ف کے انصار الاسلام رضاکاروں کو سکیورٹی پر مامور کیا جائے گا۔ اسی تناظر میں اپوزیشن کے اہم قانونی ماہرین بھی تیاری رکھیں گے تاکہ ایسی کسی کارروائی کی صورت میں عدالت سے رجوع کرکے ریلیف حاصل کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ اپوزیشن ارکان کو اپنی اپنی رہائش گاہوں تک محدود رہنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
اسلام آباد(پاکستان نیوز) عمران خان قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے اختیارات سے محروم، آئینی ماہر کا کہنا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نوٹس نے ان سے پارلیمنٹ کا ایوان زیریں تحلیل کرنیکا اختیار چھین لیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عدم اعتماد کی قرارداد جمع کرانے کے ساتھ وزیراعظم عمران خان اپنی مرضی سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار فوری طور پر کھو چکے ہیں۔ معروف آئینی ماہر کاشف ملک نے وضاحت کی کہ تحریک عدم اعتماد کے نوٹس کے محض دائر کرنے نے ان سے پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کو تحلیل کرنے کا اختیار چھین لیا ہے جسے وہ اپنی مرضی کے مطابق کسی بھی وقت بجالانے کے مجاز تھے۔ یہ شق اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین میں داخل کی گئی جب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت کے آخری دور میں قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا صدر کا صوابدیدی اختیار متفقہ طور پر ختم کر دیا گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بدنام زمانہ آرٹیکل 58(2)(b) کو حذف کر دیا گیا تھا۔ اس کی موجودہ شکل میں آرٹیکل 58 کہتا ہیکہ اگر وزیراعظم نے مشورہ دیا تو صدر قومی اسمبلی تحلیل کر دیں گے؛ مقننہ، جب تک کہ جلد تحلیل نہ ہو جائے، اس مشورے کے بعد اڑتالیس گھنٹے کی میعاد ختم ہونے پر تحلیل ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صدر کے پاس مشورہ میں تاخیر کا کوئی اختیار نہیں ہے اور انہیں بغیر کسی تاخیر کے وزیر اعظم کی سفارش پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ آرٹیکل کی وضاحت وزیر اعظم سے اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار چھین لیتی ہے جب تحریک عدم اعتماد کا نوٹس دائر کردیا گیا ہو۔