فیضان محدث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ !!!

0
221

فیمحترم قارئین! قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے، اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت فرمائے گا”(پارہ نمبر3سورہ آل عمران) ہر شے کی آزمائش اور امتحان ہوتا ہے جس سے اس کی پہچان ہوتی ہے۔ اسی طرح محبت خدا کی پہچان حضور علیہ الصلواة والسلام کی اتباع کو قرار دیا گیا ہے۔ یا یوں کہیں کہ ہر دعویٰ کی دلیل ہوتی ہے۔ جو لازمی ہوتی ہے اصل مسئلہ یہ ہے کہ کچھ لوگ مدعیان محبت خدا اپنی محبت کا یوں دعویٰ کرتے ہیں: ترجعہ:”ہم اللہ کے بیٹے اور محبوب ہیں”(پارہ نمبر6سورة المائدہ) اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ایک کسوٹی مقرر فرمائی ہے تاکہ اس پر اپنے آپ کو یہ بھی پرکھیں اور دوسرے لوگ بھی ان کو سمجھ لیں کہ یہ لوگ اپنے دعویٰ محبت خدا میں کتنے سچے ہیں؟ اطاعت و پیروی تین طرح کی ہوتی ہے۔(1) اطاعت بالخوف(2) اطاعت بالغرض ولالچ(3) اطاعت بالمحبت، ان تینوں میں سے افضل واعلیٰ ہے کیونکہ وہ دل سے ہوتی ہے اور دائمی ہوتی ہے۔ اس لئے مذکورہ آیت کو محبت سے شروع کیا گیا بلکہ یہاں ایک خاص نکتہ پنہاں ہے کہ جس عمل کی ابتداء اور انتہا محبت پر نہ ہوگی وہ عملی مردود ہوگا۔ اس لئے مذکورہ آیت میں پہلے بھی محبت کا کا ذکر ہے اور آخر میں بھی محبت کا ذکر ہے یعنی اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا۔ اطاعت بالخوف، جب تک خوف رہے گا اطاعت کا اظہار ہوتا رہے گا جونہی خوف جاتا رہا اطاعت ختم ہوجائے گی۔ جس کا مشاہدہ آپ ہمیشہ کرتے ہیں۔ جب تک حاکم وقت موجود رہے تو اس کے فوٹو گھروں میں اور دفتروں میں لگاتے ہیں۔ جونہی وہ کرسی سے اترتا ہے سب فوٹو غائب ہوجاتے ہیں اور اس کا نام لینا گوارہ نہیں کرتا اسی طرح اطاعت بالغرض ولالچ بھی مستقل اور دائمی نہیں ہوتی۔ جب تک غرض ولالچ رہے گا تو اطاعت کا اظہار ہوتا رہے گا۔ جونہی غرض ختم ہوگئی محبت بھی ختم ہوجائے گی۔ مستقل اور پائیدار اطاعت وہی ہے جو صرف اور صرف محبت کی وجہ سے ہو۔ اس میں کوئی خوف یا لالچ وغرض نہ ہو۔ قرآن پاک کا انداز بیان کتنا حسین وجمیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد نہیں فرمایا کہ اگر تم اللہ سے ڈرتے ہو تو میری اطاعت کرو۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آیت کو یوں شروع فرمایا، یعنی آیت کو محبت سے شروع فرمایا: نیز اطاعت کے دو مقصد ہیں۔1 مطاع کی محبت حاصل کرنے کی خاطر2۔ مطاع کے شر سے بچنے کی خاطر، یہاں اطاعت مطاع کی محبت حاصل کرنے کی خاطر ہے۔ پھر محبت کی دو قسمیں ہیں۔1محبت طبعی2محبت سببی، محبت طبعی محبت سببی سے اعلیٰ ہے۔ کیونکہ محبت سببی جب تک وہ سبب رہے گا محبت رہے گی جب سبب ختم ہوگا تو محبت بھی ختم ہوجائے گی جیسے کسی سے محبت حسن وجوانی کی بنا پر ہو تو جب تک حسن وجوانی رہے گی محبت رہے گی جونہی عمر ڈھلی تو محبت بھی ڈھل جائے گی۔ اسی طرح کسی سے محبت کسی شے کے وصول کے لئے تھی جونہی وہ شے حاصل ہوگئی یا اس کے پاس نہ رہی تو محبت ختم ہوجائے گی۔ اسی لئے محبت طبعی ہے غرض وبے لالچ محبت ہوتی ہے اور وہ دائمی ہوتی ہے۔ جسے کہ محبت اولاد، والدین کے دل میں اور یہاں یہی محبت درکار ہے۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ترجعہ: تم میں سے کوئی اس وقت تک مئومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسے زیادہ محبوب نہ ہوں والدین سے اور اولاد سے اور تمام لوگوں سے”(مسلم شریف کتاب الایمان ج نمبر1ص نمبر49) قرآن پاک میں لفظ اتباع استعمال ہوا ہے جس کے معنیٰ میں پیچھے چلنا۔ یعنی نہ بھائی بن کر برابر چلنا نہ باپ بن کر برابر اورآگے چلنا بلکہ غلام بن کر پیچھے پیچھے چلنا۔ یہاں یہی مراد ہے۔ پھر اتباع کی دو قسمیں ہیں۔1اتباع ظاہری2۔ اتباع باطنی یہاں دونوں قسم کی اتباع لازمی ہے۔ ظاہری بھی اور باطنی بھی اتباع باطنی یہ ہے کہ اپنے خیالات اور عقائد کو حضورۖ کے بارے میں صحیح رکھنا اور فساد سے محفوظ رکھنا۔ اتباع ظاہری یہ ہے کہ ہر عضو حضور علیہ الصلواة والسلام کی ذات پاک کی پیروی کا مظہر ہو۔ واضح ہوگیا کہ محبت رسولۖ مستلزم ہے محبت خدا کو حضور نبی کریمۖ نے بھی اپنے محبت کرنے والوں کو بے انداز نوازا ہے چنانچہ ارشاد فرمایا: ترجعہ: جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا(ترمذی شریف)
ایک دن حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ انتہائی مفہوم ہوکر بارہ گاہ مصطفیٰۖ میں حاضر ہوئے سرکارۖ نے پوچھا: کیا سبب ہے؟ عرض کی حضور آج(دنیا میں) تو جب بھی جی گھبراتا ہے تو آپ کا دیدار کرلیتے ہیں قیامت کو کیا ہوگا؟ آپ تو بلند ترین مقام پر فائز ہوں گے۔ نہ جانے ہم کہاں ہوں گے پھر وہاں ہمارا کیا ہوگا؟ ارشاد فرمایا: گھبرائو مت: المر مع من ا حب، یعنی جس سے جس کو محبت ہوگی وہ اس کے ساتھ رہے گا۔ یہ بات سنتے ہی حضرت ثوبان کو سکون مل گیا تمام صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم کی محبت مصطفیٰ بے مثال ولازوال تھی۔ اسی مسلمہ کو اسی طرح والہانہ عشق ومحبت مصطفیٰ رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں محبوبۖ کی سچی اور پکی غلامی عطا فرمائے(آمین)۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here