خاص ہے ترکیب
میں قومِ رسولِ ہاشمی !!!
عالمین کے لیئے رحمت بن کر آنے والی ذاتِ بابرکات صلی اللہ علیہ وسلم کے چرچے، ویسے تو ہر وقت ہی ہماری کمیونیٹیز میں جاری رہتے ہیں لیکن ربیع الاول کے ماہِ مبارک میں خاص طور پر منعقد ہونے والے سیرت کے اجتماعات اور نعتیہ محفلوں کے باعث ہر طرف خوب رونق رہتی ہے۔ ہر مسلمان کے دل میں بسنے والی یہ ہستی، یقینا ہمیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہے اور ہو بھی کیوں نہیں، اسی ہستی کو تو ہی محبوبِ خدا کا اعلی و ارفع درجہ حاصل ہے۔ دوسری طرف، ہمیں ان کی آواز سے اپنی آواز اونچی کرنے کی بھی ممانعت ہے، جبکہ انکی حکم عدولی کا تو کوئی سوچ ہی نہیں سکتا۔ مولانا محمد یوسف اصلاحی محترم تقریبا اپنے ہر درس میں فرماتے تھے کہ جس وقت، میں کوئی بات آپ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کرنے لگوں تو پوری توجہ سے سنیں اور شک کا کوئی شائبہ بھی اپنے دل میں نہ لائیں ورنہ ایمان خطرے میں پڑ جائے گا۔ تکریم اور تعظیم کے انہی جذبوں کے ساتھ آج ایک محفل کا انعقاد مسلم سنٹر آف گریٹر پرنسٹن (MCGP) نیو جرسی میں ہوا۔ ہمارے علاقے، سنٹرل جرسی، کے لحاظ سے یہ ایک نسبتا نیا میگا اسلامک سنٹر ہے۔ اس کی تنظیمی بنیاد نوے کی دہائی کے اولین سالوں میں برادرم ڈاکٹر شفیق احمد نے رکھی تھی۔ شروع میں IIS (انسٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز) کہلایا۔ اکنا کے مرکز سے برادر طارق الرحمان نے کچھ رقم کی گرانٹ زمین خریدنے کیلئے دی۔ مولانا یوسف اصلاحی مرحوم نے اس کیلئے ابتدائی فنڈ ریزنگ میں بڑی مدد فرمائی۔ مجھے یاد ہے اس سنٹر کے پہلے فنڈ ریزنگ ڈنر کیلئے پروفیسر خورشید احمد صاحب لندن سے تشریف لائے تھے۔ بہرحال کئی سالوں کی کمیونٹی ڈیویلپمنٹ کے بعد زمین کا ایک بڑا لاٹ خرید کر ایک بہت ہی خوبصورت اسلامک سنٹر تعمیر ہوا، جسے اب مسلم سینٹر آف گریٹر پرنسٹن (MCGP) کا نام دیا گیا ہے۔ آج جب میں اس سنٹر کی پارکنگ میں داخل ہورہا تھا تو دائیں طرف ایک پارکنگ اسپیس پر یہ سائن کہ یہ جگہ ڈاکٹر شفیق احمد صاحب کیلئے ریزرو ہے، دیکھ کر دلی خوشی ہوئی۔ ہم لوگ اکثر اپنے محسنوں کو جلدی بھول جاتے ہیں لیکن ہماری اس کمیونٹی نے اپنے فانڈنگ پریذیڈنٹ کو اس ریزرو پارکنگ کی ایک اسپیس الاٹ کرکے، بڑی اچھی روایت قائم کی ہے۔ ربیع الاول کی مناسبت سے منعقد کی جانے والی اس تقریب کا عنوان Loving the Beloved دیا گیا تھا۔ ہمارے علاقے کو اللہ تعالی نے عالمِ اسلام کے چند انتہائی خوبصورت قرت کرنے والے قاریوں سے نوازا ہے۔ ان میں سے ذاتی طور پر مجھے قاری اسماعیل عیسیٰ سب سے زیادہ پسند ہیں۔ آج انکی قرآت سے ہی پروگرام کا آغاز ہوا۔ قاری صاحب نے جب سور احزاب کی اس آیت ما ان محمد با حد مِن رِجالِم ولِن رسول اللہِ وخاتم النبِیِین وان اللہ بِلِ شی علِیما سے ابتدا کی تو رونگٹے تو کھڑے ہونے ہی تھے، میں تو جنوری کی اس ایک شام کے فسوں میں گم ہوگیا جب میں پہلی دفعہ مدینہ کی گلیوں سے گزر کر، مسجدِ نبوی میں داخلے کے بعد اپنے پیارے اور عزیز از جاں رسولِ پاک کی مرقدِ مقدس کے سامنے فاتحہ پڑھ رہا تھا اور اقبال بھی یاد آ رہا تھا کہ
خیرہ نہ کرسکا مجھے جلوہ دانش فرنگسرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف۔
اس وقت بھی یہ سوچا تھا اور آج بھی یہی خیال ہے کہ میرا وہاں پہنچنا اور مسجدِ نبوی میں حاضری دینا،
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
کے زمرے میں ہی آتا ہے۔
معاف کیجئے گا، میں پتہ نہیں کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ آج کی اس مبارک مجلس کے بنیادی طور پر دو حصے تھے۔ امام صفوان عید، شیخ مندس اور شیخ شادی المصری نے تو اپنی تقاریر کے ذریعے سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر روشنی ڈالی جبکہ دوسرے حصے میں نشید آرٹسٹس (جسٹن گریوز، عابد حسیب اور معاذ زبادنہ)نے نعتوں کے ذریعے شرکا کے ایمان کو گرمایا۔ شیوخ کی تقاریر کو اگر اقبال کے الفاظ میں سمیٹا جائے تو یوں بیان کیا جاسکتا ہے۔
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نیغبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادیِ سینانگاہِ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخروہی قرآں وہی فرقاں وہی یسیں وہی امریکی مسلم کمیونٹی میں تقاریر تو صرف ایک زبان یعنی انگلش میں ہی ہو جائیں تو ضرورت پوری ہو جاتی ہے لیکن نشید (حمد و نعت) کیلئے انگریزی کافی نہیں رہتی۔ ہمارے آج کے نشید آرٹسٹ گروپ نے بھی تین زبانوں کا استعمال کیا۔ ایک ہی نشید میں انگریزی، عربی اور اردو کا استعمال، ہمارے مسلم امریکن ادب میں ایک خوش آئند اضافہ ہے۔ دف کے مثر استعمال کے ساتھ تین مختلف زبانوں کا شعری وزن اور ردھم (تان) برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں لگ رہا تھا۔ حاضرین کی آسانی کیلئے بیس صفحات کی ایک بک لٹ (Booklet) میں، پیش کیئے جانے والے نشیدوں کی Lyrics پرنٹ کی گئی تھیں جو شرکا اپنے موبائل فونز پر پڑھ سکتے تھے۔
امریکی معاشرہ سائنسی فارمولوں اور شماریات کے حساب کتاب سے تو یقینا مالا مال ہے لیکن روحانیت کے اصولوں کی یہاں انتہائی کمی محسوس کی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تصور سے عوام کے قلب میں انقلاب لانا، عملی طور پر دعو کا ایک مثر طریقہ ہے۔ علامہ اقبال نے بھی تو یہاں یہی لائن لی ہے۔لوح بھی تو، قلم بھی تو، تیرا وجود الکتابگنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حبابعالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِ آفتابشوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کا اماممیرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پاگئے
عقل و غیاب و جستجو عشق حضور و اضطراب
٭٭٭