محترم قارئین آپ کی خدمت میں سید کاظم رضا کا سلام پہنچے، آج کی گفتگو ایک حکایت سے شروع ہے جس کے آخر میں اس مسئلے اور اس کا حل پر بحث کی گئی ہے ۔اس کے گھر میں کچھ چیز یں عجیب تھیں۔ سب سے بڑی پریشان کر دینے والی بات یہ تھی کہ قرآن کا ایک نسخہ اس نے باورچی خانے میں رکھا ہوا تھا جس پر تیل کے نشانات اور گیلے ہاتھوں سے پکڑنے کے نشانات نمایاں تھے، دوسرا نسخہ باہر باغیچہ کے برآمدے کے ایک کونے میں لگی تختی پر رکھا تھا۔ اس کے اوراق بھی بہت بوسیدہ سے تھے، ایک نسخہ اس کے بیڈ کی سائیڈ ٹیبل پر دیکھا، اور ایک لانج میں۔میں نے سوچا یہ تو خاصی پڑھی لکھی ہے، یقینا کئی بار قرآن کی طرف پیٹھ بھی ہو جاتی ہو گی، بڑی بے ادبی کی بات ہے اسے تو لگتا ہے کہ اس بات کا ذرا بھی احساس نہیں میرے دل میں غبار سا اٹھا اور شاید چہرے کا رنگ بھی بدل گیا تھا اس نے بھانپ لیا تھا تبھی بولی۔دراصل بچے چھوٹے ہیں اور بڑا خاندان ہے۔ بے تحاشا مصروفیات میں ایک جگہ بیٹھ کر قرآن سے استفادہ کا موقع نہیں ملتا۔اس لیے جگہ جگہ قرآن رکھ دیے ہیں جہاں ذرا فرصت ملتی ہے ۔اٹھاکرپڑھ لیتی ہوں ۔دراصل باجی مسئلے بھی تو دن میں ہزاروں طرح کے پیش آتے ہیں اور ہر مسئلے کا حل مجھے تو اسی میں ملتا ہے۔
میں کچھ سمجھ نہیں پائی۔۔وہ پھر گویا ہوئی
باجی اللہ نے قرآن کریم میں ہر مسئلے کا حل بتایا ہے۔ یہ بات میرے ابا نے مجھے بتائی تھی۔انھوں نے کہا تھا کہ اس سے دوستی کر لو ہر معاملے میں اس سے پوچھا کرو ۔یہ کتاب تمھیں ہر بات کا جواب دے گی اور تمھارا ہر مسئلہ حل کرے گی۔بس جب سے یہی سہیلی ہے میری، اسی سے پوچھتی ہوں سب کچھ ۔اور یہ کتاب ہے ہی ایسی کہ ہر مسئلہ کا حل بتا دیتی ہے۔کئی مسئلے تو چند آیات پڑھتے ہی سلجھ جاتے ہیں۔ جہاں سے مجھے اپنے جوابات مل جاتیہیں ان آیات کو میں نشان زد بھی کر لیتی ہوں ۔جب پھر سیکوئی مسئلہ پیش آئے تو ان ساری آیات کو جلدی سے کھنگال لیتی ہوں۔کبھی کبھار کسی مسئلہ کا حل ملنے میں یادہ وقت بھی لگ جاتا ہے، اور کبھی تو کتاب کھولتے ہی حل سامنے نظر آجاتا ہے تو ایسے وقت اپنے رب کی محبت میں میرے آنسو بہنے لگتے ہیں،بس اسی لیے ان نسخوں کی یہ حالت ہو گئی ہے،
اب کل ہی کی بات دیکھئے،میری نند آئی ہوئی تھیں۔ میں انھیں کھانا کھلا کر فارغ ہوکر باورچی خانے کی طرف جا رہی تھی کہ ان کی کچھ تلخ باتیں میرے کانوں میں پڑیں ، افسوس اور رنج سے میری حالت بہت خراب ہوئی کہ اتنی مشقت، اور پھر یہ جزا دل دکھا ہوا تھا تو یہی باورچی خانے والا قرآن کھولا، ایک آیت میرے سامنے تھی۔ “برائی کو اس نیکی سے رفع کرو جو بہترین ہو بس کیا ہوا کہ دو روز پہلے اپنے لیے جو بُندے لائی تھی، لا کر بہت پیار سے نند کو پہنا دیئے، وہ خاموشی سے کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی۔پھر رو پڑی۔میں نے اسے گلے لگا لیا۔تو بولی بھابھی سسرال میں منفی ماحول نے مجھے بھی منفی بنا دیا ہے۔ معاف کر دیجیے گا مجھے۔آپ میری اچھی بھابھی ہیں بہنوں سے بھی بڑھ کر، اللہ آپ کو بہت خوش رکھے، آباد رکھے ۔ یہ سب سن کرخوشی ہوئی، دل کا اطمینان اور سکون بھی ملا، اسی طرح آج جب آپ آئیں، میں کھانا بنا چکی تھی۔دل میں خیال آیا کیسے پورا ہو گا اتنے کھانے میں،اسی وقت حسبِ عادت قرآن کھولا، سامنے لکھا تھا۔
اگر شکر کرو گے تو میں بڑھا دوں گا۔
میں نے پریشانی چھوڑ کر اس ذات کا شکر ادا کیا ۔ فریج میں دیکھا مٹر رکھے ہیں۔سوچا مٹر پلا ئوبنا لیتی ہوں ، اسی وقت پڑوس سے بریانی کی بھری ہوئی ڈش آگئی،یہی نہیں، میاں بھی آفس سے آتے ہوئے حلیم ساتھ لیتے آئے۔ یعنی اللہ نے فورا ہی میرا مسئلہ حل کر دیا اور بندوبست کر دیا۔
اسی لیے تو بس باجی، ہر مشکل لمحے میں میرا رجوع اسی کی طرف ہوتا ہے۔
ابھی پچھلے دنوں کووڈ میں میاں کا کام چھوٹ گیا۔بڑی پریشان تھی،قرآن کھولا تو لکھا تھا:
استغفار کرو بدلے میں تمھیں بارش بھی دوں گا، مال اور اولاد کو بڑھائوں گااور باغات اور نہریں عطا کروں گا ۔میں تو حیران رہ گئی ایک استغفار کے اتنے فائدے ،پھر سوچ سوچ کر ہر اس شخص سے معافی مانگی۔جس سے گمان تھا کہ ہم نے کوئی زیادتی کی ہوگی۔ استغفارپڑھتے رہے ۔سید الاستغفار کا بھی ورد رہا ۔آپ یقین جا نیے جلد ہی اس کے ایسے اثرات ظاہر ہوئے کہ پریشانیاں دور ہوکرحالات بہتری اور خوش حالی کی طرف جانے لگے،وہ انتہائی سادگی سے قرآن کو سینے سے لگائے لگاتار بولتی چلی جا رہی تھی، اور میں بہت شرمندہ تھی،آج تک میرا قرآن سے ایسا کوئی تعلق نہیں بن سکا تھا، قرآن سے ایسی رہنمائی مجھے میسر نہیں تھی کیونکہ میں نے تو قرآن پر بیش قیمت غلاف چڑھوا کر اسے سب سے اوپر والے شیلف میں رکھ دیا تھا،
اب دل کا غبار ندامت میں ڈھلا تو آنسوئوں کی صورت بہنے لگا، میں نے قرآنِ مقدس کے ظاہری رکھ رکھائو پر جتنی توجہ دی کاش اتنی ہی توجہ اس کی روح اور اصل پیغام پر دی ہوتی۔ تو اس کے اصل پیغام سے محروم ہونے کے بجائے آج اس کا یہ قرب اور یہ اعجاز میرے نصیب میں بھی ہوتا، اس حکایت اور اس سے ماخوذ سبق ہم سب کیلئے مشعل راہ ہوگا اگلی قسط میں اس پر روشنی ڈالی جائیگی اور مسئلہ کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث کیا جائیگا ۔
ایسی ہزارہا مثالیں و حکایتیں ہمارے معاشرے میں ہر جگہ موجود ہیں اور مشاھدہ ہوتی ہیں کاش مسلمان کلام پاک کو سمجھنے کو کوشش کرتے علمائے کرام تو جانتے ہیں لیکن عام مسلمان اس کیلئے سعی نہیں کرتے وہ تفاسیر کا مطالعہ نہیں کرتے جبکہ یہ صرف خطبہ جمعہ دینے والے عالم کی زمہ داری نہیں ہے بلکہ ہم سب کا کام ہے راہ سے نہ بھٹکنے کیلئے علما رہنماء فرماتے ہیں جبکہ ہمارا کام بھی اور زمہ داری اتنی ہی ہے جتنا کسی عالم کی ہوتی ہے کلام پاک جتنا مقدس اور لازم و ملزوم عالم کیلئے ہے اتنا ہے عام مسلمان کیلئے بھی ہر ممکن کوشش کی ہے بات کو سمجھانے اور سادہ رکھنے کی امید ہے قارئین کرام مستفید ہونگے ان شا اللہ ۔
٭٭