آج ہم الطاف حسین حالی کے اس شعر سے اپنے کالم کا آغاز کر رہے ہیں ”اے خاصۂ خاصانِ رسل وقت دعا ہے، اُمت پہ تری آ کے عجب وقت پڑا ہے”۔ حالی نے سدّس میں یہ التجاء اُمت مسلمہ کی زبوں حالی کے حوالے سے کی تھی، آج ہم یہ عرض وطن عزیز پاکستان کے حوالے سے کر رہے ہیں۔ آقائے نامدار رحمت اللعالمینۖ کے جشن ولادت پر پاکستان میں جو قیامت برپا ہوئی وہ ہمیں اس التجاء پر لے آئی ہے۔ مستونگ میں عید میلاد النبیۖ کے جشن، جلوس، مسجد میں دہشتگردی کی شیطانی کارروائیاں کرنے والے کلمۂ گو مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں کہ جن کی ان کارروائیوں نے نہ صرف معصوم انسانوں کی شہادت و مضروبیت کا بھیانک جرم کیا ہے بلکہ اللہ اور رسولۖ کے بھی مجرم اور جہنم کے بھی سزاوار ہوئے ہیں۔ ہمیں دُکھ اس بات پر بھی ہے کہ دنیا میں ریاست مدینہ کے بعد نظریۂ اسلام و توحید پر قائم ہونیوالی واحد نیوکلیائی ریاست میں اسلام و وطن کے تحفظ خصوصاً ہادیٔ برحق کے جشن ولادت کے حوالے سے ارباب اختیار و اقتدار ناکام ہی رہے۔ افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ ملک میں بد امنی، تسلسل سے دہشتگردی کی وارداتوں، عوام کی کسمپرسی اور کمر توڑ مہنگائی پر توجہ دینے تدارک کے اقدامات کے برعکس ہمارے فیصلہ ساز و صاحبان اقتدار کا اولین ایجنڈا عمران خان، پی ٹی آئی کے رہنمائوں، عمران کے ہمدرد سیاسی، صحافتی، حمایتی لوگوں کو دیوار سے لگانے، غائب کر دینے، سزائوں اور قید و بند سے دوچار کرنے پر ہے۔ مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ عمران اور اس کی جماعت کو سیاسی و انتخابی منظر نامہ سے باہر رکھا جائے۔ اپنے اس مقصد کیلئے اقتدار کا فیصلہ کرنے والے اس حد تک جا چکے ہیں کہ برسوں کے آزمائے ہوئے جنرل جیلانی و ضیاء الحق کے لے پالک اور ہر بار اقتدار میں آکر اسٹیبلشمنٹ سے پنگا لینے والے کینہ پرور اور کرپٹ و سزا یافتہ نوازشریف کو اقتدار سونپنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ مقتدرین کی اس نیت پر ملک کی تمام بڑی جماعتیں بھی شکوہ اور تحفظات کا اظہار کرتی نظر آرہی ہیں اور لیول پلیئنگ فیلڈ سے اغماض کی شکایت کر رہی ہیں۔ بادیٔ النظر میں تو انتخابات ابھی (جنوری میں بھی ) ہوتے نظر نہیں آررہے، اگر ہو بھی جاتے ہیں تو نوازشریف یا ن لیگ کو ہی اقتدار دیا جانا کیوں؟ یہ امر ایک حقیقت ہے کہ عمران کو سازش کے تحت اقتدار سے محروم کرانے کے بعد ن لیگ کے زیر اقتدار حکومت کی 16 ماہ کی کارکردگی سے عوام اس حد تک نالاں ہو چکے ہیں کہ انہوں نے نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کو قبول کرنے سے قطعی انکار کر دیا ہے۔ لاہور میں شاہدرہ کی گلی میں ناکام مریم نواز کی جلسی اس حقیقت کی شاہد ہے کہ عوام ووٹ تو کیا نوازشریف کے جلسوں میں بھی شریک نہیں ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں حکومتیں بنانے اور گرانے میں 72 برسوں سے اسٹیبلشمنٹ کی مرضی و منشاء ہی شامل رہی ہے، یہ بھی کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ اقتدار کی بُھوک کے مارے سیاستدانوں نے ہی جنرلوں کے سیاست کے کھیل میں ملوث ہونے میں اپنا خود غرضانہ کردار ادا کیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ یہی سیاستدان جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار میں آکر اپنا کھونٹا مضبوط کرنے کے چکر میں انہی جرنیلوں سے اڑنگا لے لیتے ہیں اور منہ کی کھاتے ہیں۔ اس تماشے کی سب سے بڑی مثال نوازشریف کی ہے جو تین بار اقتدار میں آیا اور اپنی فطرت کی وجہ سے نہ صرف معزول ہوا اور ملک بدری کا تین بار کا ریکارڈ ہولڈر بھی ہوا۔ اس بار بھی جب اسے امید ہوئی تو یہ جانتے ہوئے کہ عوام میں عمران خان کی مقبولیت اسے لے ڈُوبے گی، اس نے جنرل باجوہ و فیض حمید سمیت چار جسٹسز کے احتساب کا نعرہ لگا دیا، یہ فیصلہ سازوں کو ہضم نہ ہوا اور ن لیگیوں کی پنڈی سے لندن تک کی دوڑیں لگ گئیں۔ احتساب کی کہانی اللہ اور عدالتوں پر چھوڑ کر سیاست کا ن لیگی مداری، اب نئی چار شرطیں لے کر آیا ہے۔ عمران کو الیکشن سے باہر رکھا جائے، میرے خلاف سارے کیسز ختم کئے جائیں، مریم کو ڈپٹی پرائم منسٹر بنایا جائے، پنجاب ن لیگ کو دیا جائے، بقول شاعر کیا عجب شرطیں رکھیں ہم پر ہدایت کار نے، مسخرے کا روپ دھاریں مسکرائیں بھی نہیں، لگتا ہے فیصلہ ساز نواشریف کی ان شرائط پر اس شعر کی تصویر بنے ہوئے ہونگے!
متذکرہ شعر بہر حال ایک حوالہ ہے لیکن کیا ہماری اسٹیبلشمنٹ اس حد کو پہنچ چکی ہے کہ بُغض عمرانیہ میں وہ سیاست کے بدترین نا اہل ترین، مجرم و بھگوڑے اور منتقم مزاج شخص کو اقتدار سونپنے پر مجبور ہے۔ ہمارا تجزیہ تو اب بھی یہی ہے کہ انتخاب کی کہانی محض ایک ڈھکوسلہ ہی ہے اور سارے کھیل تماشے حالات کو قابو میں رکھنے کیلئے ہیں۔ حالیہ صورتحال میں جہاں تک عمران کا تعلق ہے اس کا مؤقف واضح ہے !
موت قبول، جیل قبول ہے، غلامی ہر گز قبول نہیں۔ نہ پاکستان چھوڑوں گا، نہ عوام، نہ پارٹی نہ سیاست سے تعلق ختم ہوگا۔ عمران کے اس عزم کی توثیق تو اب حامد میر جیسے مخالف بھی کر رہے ہیں۔ حالات اس حقیقت کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ انتخابی معرکہ محض ایک سراب ہے اور سلسلہ جرنیلی سیاست سے ہی دراز رہے گا۔ وطن اور عوام کی بہتری و خوشحالی اس تماشۂ بازی میں نہیں غیر جانبدارانہ و شفاف انتخابات اور حقیقی نمائندگی میں ہی ہے۔ بقول حبیب جالب!
کوئی ٹھہرا ہو جو لوگوں کے مقابل تو بتائو
وہ کہاں ہیں کہ جنہیں ناز بہت اپنے تئیں تھا
وقت کا تقاضہ ہے کہ ملک کو تماشوں سے نکال کر امن و امان، خوشحالی اور آئینی راستوں پر استوار کریں اور اس کا واحد راستہ شفاف انتخابی اور حقیقی عوامی نمائندگی ہے۔
٭٭٭