درپیش چیلنج اور مسائل!!!

0
44

پاکستان کئی نوع کے مسائل کا شکار ہے۔دہشت گردی، بد امنی، معاشی ابتری، بڑھتی ہوئی آبادی، وسائل کی منصفانہ تقسیم، اداروں پر عام آدمی کا ڈگمگاتا اعتبار، ووٹ دینے والوں کا استحصال،عالمی اداروں اور قوتوں کی حد درجہ مداخلت نے ملک کی خود مختاری اور ترقی کو روک رکھا ہے۔ عام انتخابات کی تیاریوں کے دوران نگران وزیر اعظم کا تمام سیاسی جماعتوں کو قیام امن کے لئے مل کر قانون سازی کرنے کا پیغام یاد دہانی کے مترادف ہے کہ سابق حکومتیں ریاست کی ترقی و امن کے لئے اپنا آئینی و قانونی کردار ادا نہیں کر سکیں، وزیر اعظم گویا یاد دلا رہے ہیں کہ ملک کو درپیش چیلنجوں سے نمٹنے کی پالیسی پر تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں متفق نہیں ہوں گی تو بد امنی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کو یہ یاد دہانی اس لحاظ سے اہم ہے کہ وہ جمہوری نظام کی بنیاد فراہم کرتی ہیں، ان کے ذریعے عوامی اقتدار ظاہر ہوتا ہے۔ان کی ترجیحات بتاتی ہیں کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ان کی ناکامی بسا اوقات ریاست کی ناکامی بن کر سامنے آتی ہے۔سیاسی عدم استحکام اور پولرائزیشن آئندہ انتخابات میں ممکنہ طور پر زیادہ وقت اور توجہ حاصل کرے گی۔ رواں برس مئی کے واقعات اور اس سے پچھلے سال اپریل میں پارلیمنٹ میں ڈرامائی انداز میں عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد سے عدم استحکام اور پولرائزیشن میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی معیشت مہینوں سے بحران کا شکار ہے، موسم گرما کے تباہ کن سیلابوں نے حالات مزید گھمبیر بنائے۔ مہنگائی اوپر اٹھ رہی ہے، روپے کی قدر میں تیزی سے کمی ہے، ایک موقع پر زر مبادلہ کے ذخائر سوا چار ارب ڈالر کی خطرناک حد تک کم ہو گئے، جو صرف ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے کافی تھے، جس سے ڈیفالٹ کا امکان بڑھ گیا ۔ تحریک طالبان پاکستان دسیوں ہزار پاکستانیوں کو ہلاک کرنے کی ذمہ دار دہشت گرد تنظیمہے۔افغان طالبان کی حکومت کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے ۔ یہ ایک بار پھر پاکستان کے لیے خطرہ ہے۔ اس تنظیم نے گزشتہ سال پاکستان میں کم از کم 150 حملے کیے جن میں زیادہ تر شمال مغرب میں ہوئے۔ چونکہ ٹی ٹی پی کی افغانستان میں پناہ گاہیں ہیں، پاکستانی ریاست اس تنظیمکے ساتھ موثر طریقے سے نمٹنے کی حکمت عملی تیار کر رہی ہے۔افغان طالبان سے بات چیت کی جارہی ہے،افغان تارکین کو واپس بھیجا جا رہا ہے اور بارڈر ضابطے سخت بنائے گئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں طویل عرصے میں سول ملٹری تعلقات کو توازن میں رکھنا نہیں سیکھ پائیں۔یہ تعلقات کچھ حقائق کو تسلیم کر کے استوار کئے جا سکتے ہیں۔گزشتہ سال 29 نومبر کو نئے چیف آف آرمی سٹاف کی حیثیت سے جنرل سید عاصم منیر نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی جگہ لی، جو چھ سال تک (تین سال کی توسیع کے باعث) طاقتور عہدے پر فائز رہے۔سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کے استحکام کی کوششوں کے دوران مخصوص سول ملٹری تعلقات کو پیش نظر رکھنا ہو گا۔ عام طور پر مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتیں ملک میں سیاسی گفتگو اور مباحث میں رہتی ہیں، خاص طور پر انتخابی موسم کے دوران، یہ چھوٹی سیاسی جماعتیں ہیں جو اعلی سطح کی سیاست سے دور رہتہ ہیں، ان کے خیالات اور مسائل پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے حلقوں کی خواہشات غالب رہتی ہیں۔تاریخی طور پر ان کا کردارایک پریشر گروپ کے طور پر ہے ۔ یہ جماعتیں قانون سازی میں مدد کر سکتی ہیں اس وجہ سے حکومتی پالیسی پر اثر انداز ہونے کی استعداد رکھتی ہیں۔خاص طور پر بلوچستان، کے پی، سندھ کے دیہی اور پنجاب کے دور دراز علاقوں میں چھوٹی سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو تحریکوں، مظاہروں، مہمات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ ان کے پیچھے بہت سی جماعتیں اس بار پہلی بار الیکشن لڑیں گی۔ سیاسی جماعتیں امیدواروں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مرکزی دروازے کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے پارٹیوں کا مقامی، علاقائی اور قومی سطح پر نوجوانوں کی سیاسی شرکت پر بہت زور ہے۔ زیادہ تر ممالک میں، پارٹیاں طے کرتی ہیں کہ کن امیدواروں کو نامزد اور منتخب کیا جانا ہے اور کون سے مسائل قومی اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتی ہیں کہ ان کے امیدواروں کی فہرستوں میں کس کو اور کس پوزیشن پر رکھا جائے گا۔ سیاسی جماعتوں کے نامزدگی کے عمل نے ہمیشہ نوجوان امیدواروں کو نظر انداز کیا ہے، انہیں اکثر امیدواروں کی فہرستوں میں کم اہم سطح پر رکھا جاتا ہے۔سیاسی جماعتیں ریاست اور سول سوسائٹی کو جوڑتی ہیں، شہریوں کی سیاسی ترجیحات کو سیاسی عمل میں ڈھالتی ہیں۔ وہ سیاسی عزائم رکھنے والے افراد جو سیاسی جماعتوں میں قائدانہ عہدوں کے خواہش مند ہیں انہیں مخصوص خاندانوں کی اجارہ داری کی وجہ سے حوصلہ شکنی کا سامنا ہے۔ اصلاحات کا ایک بڑا نظام درکار ہے جو ناصرف سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری اقدار مستحکم بنائے بلکہ ان امور کو قومی ترجیحات میں شامل کرے جو ترقی کا راستہ روکے کھڑے ہیں۔اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اصلاحات دیرپا ہوں، ترقی اور نمو کی حکمت عملی ایک وسیع البنیاد مشاورتی عمل کے ذریعے وضع کی جانی چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کا کردار اور ان کی قیادت آخر پاکستان میں عوام دوست اور ریاست دوست کیوں نہیں ہو سکے،اقتدار کی لڑائی کی بجائے مہنگائی میں کمی کے لئے سنجیدہ پالیسی کیوں نہیں لائی جا سکی ؟ اس سوال کا جواب ہی بتائے گا کہ عام آدمی حکومت کی کارکردگی کو کیوں غیر تسلی بخش سمجھتا ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here