اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بعد یورپی یونین اور او آئی سی نے بھی پاک بھارت کشیدگی پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔یورپی یونین کی امور خارجہ کی سربراہ کاجا کلاس نے پاکستان و بھارت کے وزرائے خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کے دوران دونوں کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کو کہا۔ او آئی سی نے اپنے الگ اعلامئے میں کہا ہے کہ جنوبی ایشیا میں امن ، سلامتی اور استحکام یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کشیدگی بڑھانے والے اقدامات سے گریز کیا جائے۔اس دوران نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار نے سوئٹزرلینڈ و یونان کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کر کے بتایا ہے کہ بھارت کا رویہ علاقائی امن کے لئے خطرہ بن رہا ہے۔نائب وزیر اعظم روزانہ مختلف ممالک کے وزرائے خارجہ سے رابطہ کر کے پہلگام واقعہ کے بعد پیدا صورتحال ، بھارت کے منفی پروپیگنڈہ اور پاکستان کی جانب سے عالمی تحقیقات سمیت بات چیت سے کشمیر کا معاملہ حل کرنے کی پیشکش کر رہے ہیں۔ امریکی صدر و نائب صدر ،سعودی عرب ،روس ،چین سمیت متعدد ممالک کے سربراہ پاکستان و بھارت کو تحمل کا مظاہرہ کرنے کی اپیل کر رہے ہیں۔اس نوع کی اپیل پر پاکستان نے حسب روایت ذمہ دارانہ طرز سمل اپنایا جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں پر ظلم بڑھا کر، سرحدوں پر افواج تعینات کرکے اور میڈیا سے اشتعال پھیلا کر جنگی فضا بنا دی ہے۔عالمی برادری سمجھتی ہے کہ یوکرین روس جنگ اور غزہ میں اسرائیلی حملوں کے ساتھ جنوبی ایشیا کی دو ایٹمی ریاستیں جنگ کے میدان میں اتر آئیں تو پوری دنیا میں مال کی رسد اور فوڈ سکیورٹی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔بیک اہم علاقون میں لڑائی عالمی امن کو تباہ کر سکتی ہے۔پھر مہلک و ایٹمی ہتھیاروں کے خطرات الگ ڈرا رہے ہیں۔ 22 اپریل 2025 کو پہلگام میں سیاحوں پر حملے کے بعد بھارت کی جانب سے پاکستان کے خلاف اقدامات سے کشیدگی میں خطرناک اضافہ ہو گیا۔ بھارت نے پاکستان پر حملے کے ذمہ دار گروپ کو پناہ دینے کا الزام لگایا ۔ پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی اور وزارت دفاع نے واضح طور پر کہا کہ یہ ایک “فالس فلیگ آپریشن” تھا۔بھارت کی جانب سے اقدامات نے دو طرفہ تعلقات کو حالیہ برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچا دیا ہے۔بھارتنے سب سے پہلے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات کو کم کرنے، سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے، پاکستان کے ساتھ ویزا فری سفری نظام کو ختم کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان اٹاری بارڈر کراسنگ کو بند کرنے کے اقدامات کئے۔جواب میں پاکستان نے پانی کے معاہدے کی معطلی کو مسترد کرتے ہوئے خبردار کیا کہ پاکستان کے دریائی بہاو کو تبدیل کرنے کی کسی بھی کوشش کو “جنگ کی کارروائی” تصور کیا جائے گا۔ پاکستان نے تمام بھارتی کمرشل ایئر لائنز کے لیے اپنی فضائی حدود کو بند کرنے، بھارتی شہریوں کے لیے خصوصی ویزا نظام کو روک دیا اور دوطرفہ تجارت کو معطل کر دیا ہے۔ پہلگام حملے کے بعد سے بھارتاور پاکستان کی افواج کے درمیان ایل او سی پر آئے روز فائرنگ کا تبادلہ ہوتا ہے۔ امریکہ اور چین نے کشیدگی میں کمی کی اپیل کی ہے۔بھارتی بحریہ طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کا تجربہ کر رہی ہے۔ فرانس سے خریدے رافیل طیاروں کی آزمائشی پروازیں کی جا رہی ہیں۔ جواب میں پاکستان نے بھی اپنے مہلک ہتھیاروں کی نمائش کی ہے تاکہ بھارت ہوش کے ناخن لے۔پہلگام حملے کے ذمہ داروں متعلق جانکاری نہ ہونے کے باوجود بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کریک ڈاون شروع کر دیا ہے۔ بھارتی سکیورٹی فورسز نے 1500 سے زائد کشمیریوں کو گرفتار کر لیا ہے اور کئی سو گھروں کو مسمار کر دیا ہے۔یہ اقدامات اسرائیل کی کارروائیوں جیسے نظر آتے ہیں۔کشمیر ایک مسلم اکثریتی خطہ ہے، جس پر 1947 میں برطانوی نوآبادیاتی حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہندو اکثریت والے بھارت اور مسلم اکثریتی پاکستان دونوں نے دعوی کیا ہے۔خود کشمیری پاکستان کے ساتھ الحاق کے خواہاں ہیں۔شملہ معاہدے کے بعد کشمیر 450 میل لمبی لائن آف کنٹرول سے دو حصوں میں بٹ چکا ہے ، جہاں لاکھوں فوجی تعینات ہیں۔ کشمیر کی حیثیت پر تنازعات نے چار جنگوں اور وقفے وقفے سے تشدد کو ہوا دی ہے۔ کشمیری حریت پسند گروپ، جنہوں نے طویل عرصے سے بھارتی تسلطکے خلاف مزاحمت کی ہے وہ سفارتی ، سیاسی اور اخلاقی حمایت پر پاکستان کے ممنون ہیں ،پاکستان بھی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے فرمان کے مطابق کشمیر کو اپنی شہہ رگ سمجھتا ہے۔بھارت کے زیر قبضہ حصہ، جو کشمیر کا تقریبا 45 فیصد ہے، کو بھارت نے سرکاری طور پر ریاست جموں و کشمیر کے طور پر تسلیم کیا ۔ اس حصے کی آبادی سوا کروڑ کے قریب ہے۔بھارتکا آئین ، خاص طور پر آرٹیکل 370 ریاست کو اپنے قوانین بنانے کی اجازت دیتا تھا تاہم دو ہزار انیس میں مودی حکومت نے شق 35 کے ساتھ اس شق کو بھی آئین سے نکال دیا ۔ نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت نے یہ بھی اعلان کیا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کے درجے سے کم کر کے دو مراکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے گا، جس سے نئی دہلی کو علاقے کے معاملات پر مزید کنٹرول حاصل ہو گا۔پانچ سال سے زائد عرصہ ہو گیا بھارتی افواج نے مقبوضہ کشمیر میں جبر کا ماحول بنا رکھا ہے۔بھارت کی اشتعال انگیزی سے عالمی امن کو خطرہ ہے ،اس امر کو ملحوظ رکھتے ہوئے عالمی رہنما و ادارے فقط تشویش کا اظہار نہ کریں بلکہ بھارت کو تنازع کشمیر سمیت پاکستان کے ساتھ تنازعات کے حل کے لئے بامقصد مذاکرات کا کہیں۔
٭٭٭











