قارئین کرام! 1940ء کی قرارداد لاہور کے تناظر میں قیام پاکستان کے بعد (1954)ء سے ہر سال 23 مارچ کو یوم قرارداد پاکستان، دوسرے الفاظ میں یوم پاکستان کی تقریب اس سال بھی منائی گئی، شکرپڑیاں میں مرکزی تقریب کا اہتمام کیا گیا اور وطن عزیز کی سالمیت و خوشحالی کی دعائوں اور عزم و استقلال کے اظہار کے مسلح افواج کے پیشہ وارانہ کردار وجمہوری اقدار کے تیقن و فروغ کے حوالے سے مصور پاکستان علامہ اقبال کے اشعار و جذبہ حب الوطنی، ارشادات پر مبنی جمہوریت، متحد قوم و خودی کا مسلسل اعادہ کیا گیا لیکن کیا درحقیقت وطن عزیز کے معاملات علامہ اقبال کے فلسفہ کے مطابق چل رہے ہیں؟ یہ سوال تشنۂ جواب ہے اور شاید آئندہ بھی رہے گا۔ ”علامہ اقبال نے کہا تھا اگرچہ بُت ہیں، جماعت کی آستینوں میں، مجھے ہے حکم اذاں ”لا الہ الا اللہ” یہ شعر اور اس نظم کے دیگر اشعار پریڈ میں پڑھے گئے اور خُوب جذبہ سے پڑھے گئے، مگر کیا وطن عزیز میں اس پر کہیں بھی عمل نظر آتا ہے؟ ریاست، حکومت، سیاست، تجارت، صحافت حتیٰ کہ کھیل کے شعبوں پر بھی نظر ڈالیں تو ہر جگہ عمل و کردار منفی ہی نظر آتا ہے۔ اذاں محض نماز سے قبل دعوت دینے کا ہی نام نہیں بلکہ راستی و فلاح کی جانب آنے اور عمل سے موسوم ہے تو کیا ہم بحیثیت فرد، قوم اور معاشرہ اس پر عمل کر رہے ہیں، ہر گز نہیں۔ یہاں تو حال ہے یہ ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت یا رہنما پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ” نعرہ لگائے تو اسے قابل تعزیر بنا دیا جاتا ہے۔ اس پر اظہار کی پابندیاں لگا دی جاتی ہیں اور علامہ کی زبان میں گلا گھونٹ دیا جاتا ہے کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری۔
ہم وطن عزیز کی تاریخ و معاشرت پر نظر ڈالیں تو بحیثیت معاشرہ صرف نعروں کی قوم ہیں عمل کی قوت سے قطعی محروم نظر آتے ہیں۔ ماضی کو دہرانے کے برعکس اگر ہم موجودہ صورتحال کو ہی دیکھیں تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کوئی شعبہ، کوئی سمت بھی ملک و عوام کے مفاد یا بہتری کی جانب نہیں ہے۔ ایک جانب سیاسی مخاصمت و منافقت ہے تو دوسری جانب معاشی عدم استحکام کے سبب آئی ایم ایف اور عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کی محتاجی ہے، یہی نہیں ہزاروں دھرتی کے بیٹوں کی شہادتوں کا ایک سلسلہ ہے جو کسی طور تھم ہی نہیں رہا ہے۔ خطے کا اہم اسٹریٹجک ملک ہونے کے باوجود ہم اپنے پڑوسیوں سے نہ بنا سکے اور عالمی برتری کی دوڑ میں شامل قوتوں کے مفادات کے سبب دہشتگردی کے بھوتوں کا خاتمہ نہ کر سکے ہیں جو ہمارے پڑوسی ممالک میں پرورش پا رہے ہیں اور نہ صرف ہمارے بچوں، بڑوں کی شہادتوں اور دہشتگردی کے اقدامات سے ملک کو کمزور کرنے کے بھارت، افغانستان و ایران کے توسط سے مسلسل مشن پر کمر بستہ ہیں۔ 2019ء میں بھارتی سازش اور بالاکوٹ حملے سے اب تک میر علی میں دہشتگردی کے واقعات پر نظر ڈالیں تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارے ہمسایہ ممالک متعینہ ایجنڈے پر پاکستان میں دہشتگردی کو سپورٹ کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے ملک کو چین کیساتھ سی پیک اور ایران کے ہمراہ گیس پائپ لائن کے منصوبوں کو زک پہنچائی جائے۔
ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پڑوسی ممالک اور دہشتگردوں کے پاکستان دشمن اقدامات کو ہماری عسکری قیادت بھرپور طریقے سے نہ صرف ناکام بنا رہی ہے بلکہ منہ توڑ جواب بھی دے رہی ہے مگر کیا وہ ہمارے ملک کے موجودہ سیاسی، معاشی حالات اور اداراتی معاملات نیز دہشتگردی کے خاتمے اور دشمن کے منصوبوں کو عوامی حمایت کے بغیر ناکام بنانے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ کسی بھی ملک کی سالمیت، خوشحالی و ترقی اسی وقت ہی ممکن ہو سکتی ہے جب اس کے عوام اور تمام ادارے باہم یکجا اور متحد ہوں اور اپنے دائرہ کار میں منصفانہ خدمات انجام دے رہے ہوں۔ وطن عزیز کا المیہ یہ ہے کہ ہمارے تمام ادارے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کر کے اپنے بنیادی فرائض سے اغماز کرنے پر ہی تُلے رہتے ہیں۔ ریاست یا مملکت کے معاملات کسی ایک ادارے کی مرضی و منشاء کے مطابق نہیں چل سکتے، عوام کی سپورٹ وطن کی مضبوطی و ترقی کی ضمانت ہوا کرتی ہے اور دشمنوں کو ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کسی قسم کی دشمناناں حرکت کریں۔
ہمارے وطن میں تمام اختیارات و فیصلے مقتدرہ کے مرہون منت ہی ہیں اور یہ آج کی بات نہیں برسوں بلکہ عشروں کا تسلسل بھی ہے۔ اس بار جو کچھ ہوا ہے وہ ہماری یادداشت کے مطابق کبھی نہیں ہوا۔8فروری کے انتخابات سے قبل اور بعد میں جو کچھ ہوا اور جس طرح عوامی مینڈیٹ کو ٹھکرا کر تشکیل دی گئی وہ تو زور آوروں کا ماضی کے معمول کا حصہ ہے، حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ وفاق میں کابینہ میں ایسے افراد کو شامل کیا گیا ہے جو نہ کوئی الیکشن لڑے ہیں اور نہ ہی ایوان کا فی الحال حصہ ہیں، مزے کی بات یہ ہے کہ یہ افراد محض اس بنیاد پر کابینہ کا حصہ ہیں کہ وہ مقتدرہ کی چوائس ہیں اور وزیراعظم سے بڑھ کر اختیارات کے حامل نظر آتے ہیں۔ محمد اورنگزیب کو امریکہ سے بلا کر وزارت خزانہ دی گئی ہے تو سابق وزیراعلیٰ پنجاب (نگران) محسن نقوی کو وزارت داخلہ کیساتھ پی سی بی کا چیئرمین کے ساتھ علاوہ شنید ہے کہ وزارت شپنگ کا قلمدان بھی انہیں دیا جا رہا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ محسن نقوی کی وزیراعظم سے نہیں بن رہی ہے اور ایک تجزیہ کار کے مطابق طاقتوروں کے قریب ہونے کے ناطے محسن نقوی زیادہ با اختیار ہے۔ دوسری جانب سابق وزیر خزانہ اور میاں نوازشریف کے سمدھی کو وزیر خارجہ بنا دیا تو گیا ہے مگر ساتھ طارق فاطمی و جلیل جیلانی کے دُم چھلے لگا دیئے گئے ہیں، مقصد واضح ہے کہ کابینہ ان فیصلوں پرعمل کرے جو اسٹیبلشمنٹ نے طے کر دیئے ہیں گویا کہنے کو تو کابینہ سول ہو لیکن عمل پذیری فیصلہ سازوں کے ایجنڈے پر ہو۔ اس کیلئے ہر دو متذکرہ افراد کے علاوہ سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور پی ٹی آئی کے سزا یافتہ منحرف اور اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ شیخ رشید، فیصل واوڈا کو سینیٹ میں منتخب کرانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ ہمارا مطمع نظریہ ہے کہ عوام کے مینڈیٹ کو ٹھکرا کر اور عوام کی سب سے مقبول قیادت کو دیوار سے لگا کر پاکستان میں نہ استحکام آسکتا ہے (خواہ سیاسی ہو یا معاشی) اور نہ ہی حکومت چل سکتی ہے جو بیساکھیوں پر کھڑی ہو۔ نتیجہ یہی ہو سکتا ہے کہ میرا وطن خوشحالی و استحکام اور ترقی سے محروم رہ کر دوسروں کی محتاجی پر مجبور رہے، کلمۂ حق گوئی اور قوم کی خودی کو علامہ اقبال نے آزاد قوم کا ماحاصل قرار دیا ہے۔
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الا اللہ
ہم کب تک براہیم کی تلاش کرینگے، کچھ پتہ نہیں!
٭٭٭