ٹرمپ کی امریکیز فرسٹ پالیسی تارکیں کی 6لاکھ ملازمین ختم

0
177

نیویارک (پاکستان نیوز) صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کے طویل لاک ڈاﺅن کے بعد امریکیوں کو ملازمتوں پر بحال کرنے کے لیے تاریخی فیصلہ کرتے ہوئے 6 لاکھ سے زائد تارکین کیلئے ملازمتوں کے دروازے مستقل بند کر دیئے ہیں، امیگریشن کے سلسلے میں لیبر ویزوں کی پانچ کیٹیگریز پر مکمل طور پر پابندی عائد کی جائے گی جس کے بعد دنیا بھر سے امریکہ میں ملازمت کی خواہشمند بڑی تعداد میں ملازمین اپنے ہی ممالک تک محدود ہو کر رہ جائیں گے ، صدر ٹرمپ نے امریکی نوجوانوں کو برسر روزگار کرنے کے لیے تمام ایسی کمپنیوں کو جوکہ کم تنخواہ پر بیرون ملک سے ملازمین ہائر کرتی تھیں کو خبردار کیا ہے کہ وہ اب پہلے امریکی نوجوانوں کو ملازمت دیں گے، اس کے بعد ضرورت پڑنے پر کسی غیر ملکی کو ملازمت پر رکھا جائے گا ، ذرائع کے مطابق امریکہ میں 500کے قریب ملٹی نیشنل کمپنیاں کام کر رہی ہیں جوکہ کم تنخواہوں پر بیرون ممالک سے نوجوانوں کو ملازمت دیتی تھیں ، اب ان کمپنیوں کو نوجوان امریکیوں کو زیادہ تنخواہ پر ملازمت دینا پڑے گی کیونکہ ٹرمپ حکومت H-1B، H4،H2B،J اورL کیٹیگریز کے ویزوں کو مکمل اور مستقل طور پر ختم کرنے جا رہی ہے ، صدر ٹرمپ نے H-1Bویزا استعمال کرنے والی کمپنیوں کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ وہ امریکی نوجوانوں کو ملازمت دینے کے لیے نئے سرے سے لیبر کنڈیشنز ایگریمنٹ تیار کریں جس کو عرف عام میں ”ایل سی اے“ کہا جاتا ہے ، صدر ٹرمپ کی جانب سے دنیا کے مختلف حصوں سے امریکہ آنے والے ورکرز پر جاری پابندی اس سال کے آخر تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، امریکی حکام کے مطابق اس اقدام کے نتیجے میں کرونا وائرس کے باعث بیروزگار ہونے والے امریکی شہریوں کے لیے پانچ لاکھ 25 ہزار ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہوں گے۔صدر ٹرمپ نے کرونا بحران کے پیش نظر بیرون ملک سے آنے والے ورکرز پر پابندی کا حکم اس سال اپریل میں جاری کیا تھا۔ آج اس پابندی کے دو ماہ پورے ہونے پر اس میں دو ماہ کی توسیع کی جا رہی ہے۔ان پابندیوں کا اطلاق ٹیکنالوجی کے ماہر ورکرز اور ایچ ون بی ویزہ پر آنے والے افراد پر بھی ہو گا۔امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں ہر سال بھارت اور چین سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے ٹیکنالوجی کے ہزاروں ماہرین کو امریکہ لاتی ہیں۔اس کے علاوہ ایچ ٹو بی ویزہ پر بھی پابندی ہو گی، جو کہ زراعت کے علاوہ مختلف موسموں میں بیرون ممالک سے انے والےکارکنان کو امریکہ آنے کی اجازت دیتا ہے۔اسی طرح طلبہ کے تبادلے کے لیے جے ون ویزہ اور بین الاقوامی کارپوریشن کے دفتروں میں کام کرنے والے مینیجرز کے لیے ایل ویزہ پر بھی پابندی ہو گی البتہ فوڈ پراسیسنگ سے وابستہ کارکنان، صحت کے شعبے سے وابستہ افراد، جو کرونا وائرس کے خلاف جنگ میں مدد کر رہے ہیں، وہ اس پابندی سے مستثنیٰ ہوں گے۔صدر ٹرمپ کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق، امریکہ اس سال کے آخر تک نئے کارکنان کو امریکہ آنے کے لیے ویزا جاری نہیں کرے گا۔ تاہم، نئی پابندیوں کا اطلاق امریکہ میں پہلے ہی سے موجود کارکنان پر نہیں ہوگا ، امریکی انتظامیہ اور صدر ٹرمپ کے حامیوں نے امیگریشن کے اس اہم فیصلے کو ”حالات کے مطابق اور بروقت” قرار دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق کرونا وائرس بحران کے باعث ملازمتوں سے فارغ ہونے والے افراد کے لیے مواقع میسر ہوں گے لیکن ان فارمیشن ٹیکنالوجی کمپنیوں اور اعلیٰ تحقیقی اداروں نے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی ہے۔ قومی سائنس فاو¿نڈیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق امریکہ میں سائنس اور انجینئرنگ کے شعبوں میں 30 فیصد ورکر دنیا کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے تارکین وطن ہیں۔ٹیکنالوجی کمپنیاں ہر سال بیرونی ملکوں، خاص طور پر چین اور بھارت سے کارکنان کو امریکہ لاتے ہیں۔ سلیکان ویلی اور ہیوسٹن میں بھارتی شہریوں کی ایک بڑی تعداد ٹیکنالوجی کے ماہرین کے طور پر مختلف کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ ماضی میں پاکستانی ماہرین بھی اسی ویزا پر امریکہ آتے رہے ہیں۔کچھ ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ماضی میں ایچ ون بی ویزا کا غلط استعمال کیا گیا۔ اور اب اس کی اصلاح کی ضرورت ہے۔امریکہ کو درپیش اتنے بڑے اقتصادی بحران کو دیکھا جائے تو صدر ٹرمپ کا یہ فیصلہ درست دکھائی دیتا ہے۔ دگرگوں حالات میں ملازمتوں سے فارغ امریکیوں کا یہ حق ہے کہ پہلے انہیں کام کرنے کے مواقع میسر ہوں۔دوسری طرف ماہرین اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ایچ ون بی ویزا پر آنے والے نئے ورکرز کی پابندی کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔ یہ ویزا آئی ٹی اور ٹیکنالوجی کے دوسرے شعبوں میں پیشہ وارانہ مہارت رکھنے والے افراد کو جاری کیا جاتا ہے۔ محکمہ خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2019 میں ایک لاکھ 88 ہزار افراد کو ایچ ون بی ویزا جاری کیا گیا۔امریکی یونیورسٹیوں کی تنظیم کی نائب صدر لیزبیت بوروز کہتی ہیں کہ امریکہ میں باہر کی دنیا سے آنے والے پیشہ ور لوگوں پر پابندی سے امریکہ میں اعلیٰ تحقیق اور تنوع کے ساتھ کے سائنسی بنیادوں پر نئی نسل کی تعلیم دینے کی کوششوں پر منفی اثر پڑے گا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here