پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جس کے شہریوں کو اعتماد نہیں ہے یہ ان کا ملک باقی رہے گا یا نہیں جس کا شہری ملک ٹوٹنے کا اظہار کرتا نظر آتا ہے حالانکہ پاکستان کے وجود کے لئے دس لاکھ لوگ اہل پنجاب مارے گئے تھے جنہوں نے ہجرت کی بجائے اوجاڑوں اور وچھوڑوں کا نام دیا تھا جس کا مطلب اور مقصد اہل پنجاب کو غیر رضا کارانہ طور پر بے گھر اور بے دو کیا تھا جس کا شب سے بڑے قصور وار بنگالی اور سندھی قوم ہے جنہوں نے پاکستان کی حمایت میں قرار داد منظور کی تھی جبکہ پاکستان کے موجودہ تین صوبوں پنجاب پختون اور بلوچستان نے پاکستان کے وجود کی حمایت کی تھی۔ تاہم پاکستان کی تاریخ میں سولہ دسمبر کا سانحہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا کہ جب جنرل ایوب خان نے اپنے وزیر قانون اور سابقہ بدنام زمانہ چیف جسٹس منیر احمد کو کہا کہ وہ بنگالی قیادت سے الگ کرنے پر مذاکرات کریں جنہوں نے ان کے کہنے پر عمل کیا تو بنگالی قیادت نے اپنے شدید ردعمل میں کہا کہ پاکستان ہم نے بنایا ہے لہذا آئندہ ہمیں الگ ہونے پر بات مت کرنا جس کا تفصیل سے ذکر جسٹس منیر احمد نے اپنی کتاب جناح سے ضیا تک میں کیا ہے جس پر پاکستان میں پابندی عائد ہے بعدازاں جنرلوں کے منصوبے کے تحت بنگالیوں کی علیحدگی کے لئے کوشش جاری رہی کہ آخر کار وقت آگیا کہ جب جنرلوں نے بنگالی قوم کی حب الوطنی کو انتخابات کے ذریعے علیحدہ کردیا جب بنگالی قوم نے1970کو انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بنگالیوں نے مغربی پاکستان سے زیادہ ووٹنگ کا استعمال کیا جس کے بدلے عوامی لیگ پارٹی نے ماسوائے دو نشستوں باقی تمام قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں اکثریت حاصل کی تھی۔ جب بنگالی قوم نے اقتدار ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا تو جنرلوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے اقتدار سے انکار کرتے ہوئے سابقہ مشرقی پاکستان(بنگال) پر فوجی آپریشن جاری کردیا جس میں لاکھوں بنگالی مارے گئے بے تحاشہ ظلم وستم کیا گیا۔لاتعداد عورتوں کی عصمت دری کی گئی جو بنگال کو الگ ہونے کا باعث بنا۔ چنانچہ سولہ دسمبر کو پاکستان ٹوٹ گیا۔90ہزار فوجی اور سویلین جنگی قیدی بنا لئے گئے جن کو بھارتی فوج نے آکر بچا لیا ورنہ بنگالی قوم انتقامات مغربی پاکستان کے لوگوں کو جانوں سے مار ڈالتے۔ چنانچہ بچے کھچے پاکستان پر بھٹو حکمرانوں بنا جن کو چند سالوں بعد جنرل ضیاء الحق نے ملک پر قبضہ کرتے ہوئے پھانسی پر لٹکا دیا۔ جو گیارہ سال تک اپنے تاحد طیارہ حادثہ تک چلا غیر شرکت حکمران بنا رہا جس کے بعد دس سال تک لنگڑی لولی سویلین حکومتیں وجود میں آئیں جن کو توڑ پھوڑ میں دس سال تک جنرل طبقہ ملوث رہا جس کا جنرل مشرف نے پارہ اکتوبر1999کو ملک پر قبضہ کرتے ہوئے خاتمہ کردیا جو اپنے جنرل ایوب خان جنرل یحیٰی خان، جنرل ضیاء الحق9سال تک حکمران رہے جن کو نقش قدم پر آخر کار وکلاء تحریک نے رسوا کرکے ملک بدر کیا جو ملک بدری میں وفات پا گئے جن کے خلاف ایک تاریخی عدالتی فیصلہ آیا کہ جنرل جس میں جنرل مشرف کے تمام اقدام کو کالعدم اور آرٹیکل چھ کے تحت مقدمہ غداری قائم کرنے کا حکم دیا جو ہوا جس میں جنرل مشرف کو چیف جسٹس وقار سیٹھ کے سربراہ میں سزائے موت سنائی گئی جس پر آج تک عملدرآمد نہیں ہوا ہے۔ بہرحال پاکستان میں مسلسل جنرلوں کی 35سال برائے راست اور باقی زیادہ تر عمران خان جیسے کٹھ پتالیوں کی حکومت قائم رہی ہے جس میں ملک بے تحاشہ انتشار اور خلفشار کا شکار ہوچکا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک میں اثار کی اور خانہ جنگی کے اثرات پیدا ہوچکے ہیں جس میں بھارت اسرائیل اور دوسری طاقتیں بھی شامل ہیں جو ملک کو مزید ٹکڑوں میں بانٹنا چاہتے ہیں پوری پاکستان قوم، ادارے، عوام عدلیہ تقسیم ہوچکے ہیں جو پھر کسی سانحہ کے منتظر ہیں کہ لوگ پاکستان آج ٹوٹا یا کل ٹوٹا کا ذہن بنائے پھر رہے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے کہ اگر اب کے ملک ٹوٹا کو ملک میں بہت بڑی خون ریزی برپا ہوگی۔ دہائیوں کے بعد شہری ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن جائیں گے جس کا تحریک چھوٹا سا تجربہ کراچی میں ہوچکا ہے۔ جو آج تک موجود ہے اگر یہی حال پورے ملک میں ہوگا تو پھر کیا ہوگا اللہ پاک پاکستان کو دشمنوں سے بچائے رکھے(آمین)۔
٭٭٭