میرِ کارواں کی تلاش!!!

0
56
ڈاکٹر مقصود جعفری
ڈاکٹر مقصود جعفری

قوموں کے عروج و زوال کی داستان سبق آموز داستان ہے۔ تاریخ صرف بادشاہوں کے قصوں ، محلاتی سازشوں ، جنگوں اور سیاسی مناقشوں کا نام نہیں بلکہ یہ اپنے دامن میں انقلابی رہنماوں کی قربانیوں کو بھی سمیٹے ہوتی ہے جس سے زندہ اور باشعور اقوام سبق سیکھتی ہیں۔ William James Durant کی کتاب The Story of Civilization , Thomas Carlyle کی کتاب Sartor Resartus اور Edward Gibbon کی کتاب The Decline and Fall of the Roman Empire وہ چشم کشا تاریخی کتب اور معاشرتی ، سیاسی اور سماجی انقلابات کی اہم دستاویزات ہیں جن کا مطالعہ قوموں کی ایک طرف عزیمت و عظمت تو دوسری طرف ذلت و نکبت کی داستان بتاتا ہے۔ بانیانِ پاکستان علامہ اقبال اور قائدِ اعظم کے خوابوں کی تعبیر ابھی شرمند? تعبیر ہے۔ جب سے یہ ملک بنا ہے ہم یہی منحوس فقرہ سن رہے ہیں پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ خواتین کے عالمی دن پر خواتین اپنے آپ کو روایتی اور رومانوی لفظ صنفِ نازک کو اپنی توہین قرار دیتے ہوئے خود کو صنفِ آہن قرار دے رہی ہیں جبکہ پاکستان 74 سال گزارنے کے بعد بھی صنفِ نازک ہے اور نازک دور سے گزر رہا ہے۔ افسوس صد افسوس زبانِ فردوسی میں کہنا پڑتا ہے تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو۔
پاکستان IMF اور World Bank کے قرضوں تلے دبا ہوا قریبِ مرگ ہے۔ اسے اس حالت تک پہنچانے میں جاگیر داروں، ملاوں ، سیاست دانوں ، نوکر شاہی اور حکمرانوں کا ہاتھ ہے۔ مدتِ مدید سے قوم کسی مسیحا کی تلاش میں ہے۔ کئی سال قبل شائع ہونے والے میرے شعری مجموعہ متاعِ درد کی ایک غزل کا شعر ہے!
بھٹک جائے سرِ رہ قافلہ یا پہنچے منزل پر
خلوصِ راہبر تک ہے، شعورِ کارواں تک ہے
پاکستان میں نہ خلوصِ راہبر ہے اور نہ ہی شعورِ کارواں ہے۔ شور و شر ہے اور فتنہ زور و زر ہے ۔ Democracy ( جمہوریت )نہیں بلکہ Mobocracy ( ہجومیت ہے۔ متاعِ درد کے چند اور شعر یاد آ رہے ہیں جو آج بھی قومی مسائل اور مصائب پر صادق آ رہے ہیں!
یہ کنجِ قفس اور وہ کاشانے کا جلنا
مجبور ہیں، با دیدہ تر دیکھ رہے ہیں
آج اِس خدا کے ساتھ تو کل اس خدا کے ساتھ
مطلب پرست پھیرتے ہیں رخ ہوا کے ساتھ
ہرگز نہ پہنچے گا سرِ منزل وہ قافلہ
چلنا جو جانتا نہ ہو بانگِ درا کے ساتھ
رہبر بناو اس کو جو ہو منزل آشنا
کیوں بھاگتے ہو دوستو ہر باد پا کے ساتھ
ہمارا قومی المیہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت غریب اور غیر تعلیم یافتہ ہے جبکہ سیاست دانوں کی اکثریت سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور صنعت کاروں کی ہے۔ رہی سہی کسر مارشلائی جرنیلوں نے پوری کر دی۔ ممتاز برطانوی فلسفی برٹرینڈ رسل کے بقول جمہوریت کے لئے تعلیم اور سماجی انصاف کا ہونا لازمی ہے۔ پاکستان میں عوامی سطح پر نہ تعلیم ہے اور نہ ہی سماجی انصاف۔ ایسے میں یہاں عوامی سطح پر انقلاب کی ضرورت ہے جو دور دور تک نظر نہیں آ رہا۔ خونیں انقلاب کو روکنے کا واحد علاج یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان چند قانونی اقدام اٹھائے اور قوم کو تباہی سے بچائے۔ جاگیر داری کا خاتمہ کر کے تمام زمین کو ریاست کی مِلکیت قرار دیا جائے۔ نوکر شاہی کے ایک سے لے کر بائیس گریڈ ختم کر کے ایک سے لے کر دس گریڈ میں مالی معاملات کو فکس کیا جائے۔ فرقہ واریت اور مسلکی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔ مزدوروں کو منافع میں شامل کرنے کے احکامات صادر کئے جاہیں۔ رشوت ستانی ، ذخیرہ اندوزی، بردہ فروشی، اغواء اور دہشت گردی جیسے قبیح جرائم کی سزا سزا موت قرار دی جائے جس پر فوری عمل در آمد کیا جائے ۔ صوبائی اسمبلی ، قومی اسمبلی اور سینٹ کے امیدوار کا گریجوئٹ ہونا لازمی قرار دیا جائے اور ووٹر کی میٹرک تک تعلیم کو بھی لازمی قرار دیا جائے۔ یہ اقدامات پاکستان کی روایتی اور سرمایہ دارانہ اسمبلیوں نہیں اٹھائیں گی کیونکہ یہ انقلابی اقدامات ان کی سیاست اور مفادات کے خلاف ہیں۔ قوم کی نظر سپریم کورٹ کے باضمیر ، انصاف پسند اور محبِ وطن ججز پر لگی ہوئی ہے وگرنہ خونیں انقلاب کے لئے زمین ہموار ہے بس کسی لینن ، ماو زے تنگ یا خمینی کا انتظار ہے۔ فیض احمد فیض کے اِن اشعار کو اب حرزِ جاں جانیں اور قومی مقدر تلاش کریں
مقتل میں ، نہ مسجد ، نہ خرابات میں کوئی
ہم کس کی امانت میں غمِ کارِ جہاں دیں
شاید کوئی اِن میں سے کفن پھاڑ کے نکلے
اب جائیں شہیدوں کے مزاروں پہ اذاں دیں
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here