قارئینِ وطن ! اللہ کی شان بلاول زرداری، مولانا فضل الرحمان اور چوروں کے چور شہباز شریف ملک کے بڑے لیڈروں میں شریک ہوتے ہیں اْن جملوں کا محرک کامران شاہد ہے کہ یہ سب آج حکومت کی جانب سے صحافت کے حوالے سے کوئی قانون لے کر آ رہے ہیں جس کو صحافی کالا قانون کا نام دے رہے ہیں کہ ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرنے آئے ہیں ـ ہمارے ملک میں صحافت کے خلاف پابندیوں کا سلسلہ جہاں تک میری نظر جا سکتی ہے یہ فیلڈ مارشل آیوب خان سے شروع ہوتا ہے جب آمروز اور پاکستان ٹائمز کو ٹرسٹ بنا دیاتھا اور اْس وقت سے شروع ہونے والا قدگن آج تک جاری ہے ـ فرق اتنا ہے آج کی صحافت اور صحافی دونوں پرانے صحافیوں کے مقابلے میں بڑے بے باک اور ماچو بن چکے ہیں اور وطن کے طول و عرض میں مختلف گروپس بنا کر مافیائی رول ادا کر رہے ہیں خیر پرانے صحافیوں میں بھی م ش جیسے کردار ہوا کرتے تھے آج ان کی جگہ افضل بٹ اور حامد میر جیسے لوگوں نے سنبھال لی ہے جو آئے دن آزادی صحافت کے نام پر حکومت کو بلیک میل کر رہے ہیں مجھ خاکسار کو وہ زمانہ یاد ہے جب نواز شریف پنجاب کا چیف منسٹر ہوا کرتا تھا اور کرامت علی خان اس کے سیکرٹری انفارمیشن تھے تو جنگ اخبار کے اطہر مسعود لفافہ لینے آتا تھا اور آج شہباز شریف جو اپنے تین ادوار میں صحافی بھائیوں کو لفافے بانٹا کرتا تھا آج وہ کس منہ سے صحافت کے کالے قانون کے خلاف آواز بلند کریں گے جو خود کالے کرتوتوں کا مالک رہا ہے۔ رہا سوال بلاول زرداری کا تو اس کی ماں بے نظیر اور باپ آصف زرداری دونوں صحافیوں کے خلاف ہوا کرتے تھے لہازا اس بچے کو کیا معلوم یہ تو شہیدوں میں نام لکھوانے گیا تھا رہا تیسرے بڑے لیڈر مولانا فضل الرحمان کا جس کو ہی سوال کرنے والا صحافی زہر لگتا ہے صرف عمران خان کی دشمنی میں آزادیِ صحافت کا علمبردار بنا ہوا ہے یقین جانئے یہ سب بغض عمران خان میں اکھٹے ہوئے ہیں جو اپنے اپنے دور میں اور آج پھر ان کے ہاتھوں میں اقتدار آجائے تو یہ ایسی ایسی صحافتی پابندیاں عائد کریں گے ہر کوئی الامان الامان پکارے گا ۔قارئین وطن! میں ایک پولیٹیکل ورکر اور چھوٹا سا کالم نگار ہونے کی حثییت سے آزادی صحافت کا علمبردار ہوں میری خواہش ہو گی کہ عمران خان صاحب آزادیِ صحافت کے حوالے سے جو وعدے کرتے رہیں اْن کو پورا کریں اور خاص طور پر جو تنقید وہ نواز شریف کے کالے قانون کے دور میں کرتے رہے ہیں ان کو نہ دہرائیں اور ایسی کوئی قدگن نہ لگائیں جن کے خلاف وہ خود بلند بانگ تقریر کیا کرتے تھےـ ہاں میں اْن لوگوں کی تحریروں اور تقریروں پر پابندی کے حق میں ہوں جیسے حامد میر اور اس قبیل کے لوگوں کے جو ریاست پاکستان کے خلاف دشمنوں کے اخباروں میں لکھتے ہیں اور ان کے ٹی وی پر زہر اگلتے ہیں لیکن پھر سوچتا ہوں کہ جس ملک جس کو پاکستان کہتے ہیں وہاں مجرموں مریم صفدر جیسی خاتون کو سلامتی کے اداروں کے خلاف زہر اگلنے سے نہیں روک سکتے تو ” را ” کے ایجنٹوں کو کس طرح روکیں گے ابھی کچھ دن ہی گزرتے ہیں کہ حامد میر انڈیا کے چینل پر بیٹھ کر سلامتی کے اداروں کو اپنے زہر آلود لفظوں سے روند ھ رہا تھا ـ ہمارا تو یہ حال ہے کہ کوئی راقم کے کالم کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا وہاں کے صحافتی کار پرداز کہتے ہیں جو ہمیں نواز اور شہباز دیتے ہیں لفافوں میں آپ تو اس کا اشرِ ے اشئیر بھی نہیں دے سکتے ہم دوستی میں صرف ایک کالم چھاپ سکتے ہیں بس ہمارے بزرگ مجید نظامی مرحوم بھی نہیں چھاپ سکے کہ ان کو تو بہت مال ملتا تھا دونوں بھائیوں سے وہ خود تو گالیاں دے دیتے تھے لیکن چھاپ کچھ نہی سکے تو آپ میرے قارئین خود اندازہ کر لیں کہ جو آزادی ہمیں سوشل میڈیا نے دی ہے بہت بڑی بلیسنگ ہے ورنہ یہاں اور وہاں والے اخبار کے مالک اور ان کے اڈیٹر صاحبان کے بڑے نخرے اٹھانے پڑتے تھے ـحالانکہ نواز کے چمچے جانتے ہیں کہ ! علی الا علان کیا کرتا ہوں سچی باتیں چور دروازے سے آندھی نہیں آیا کرتی آخر میں میں پھر عمران کی حکومت سے درخواست کروں گا کہ آزادی صحافت کا پورا احترام کریں لیکن ریاست کے خلاف کام کرنے والوں کا مکمل قلعہ قمہ کریں۔