کیا مرد ظالم ہے یا عورت مظلوم؟

0
179
شبیر گُل

ایک ڈرامہ سیریل تھا جس میں ایک عورت کی اپنے مرد سے بیوفائی کو لوگوں نے پسند نہ کیا لیکن آخر میں عورت پر رحم اور ترس آیا۔ عورت کے ساتھ ولن مرد کو گالیوں اور مغلظات سے ہر جگہ نوازا گیا۔آج یہ کہانیاں گھر گھر کی ہیں۔ اس سیریل میں ایک بچہ رومی جس کا کردار بہت پسند کیا گیا۔ ہمایوں سعید نے باپ کا کردار ادا کیا۔جو انتہائی مثبت تھا، وہ رومی کو ماں سے ملنے کو کہتا، کال کرنے کو کہتا لیکن ہمارے معاشرے کی باکردار عورتیں خاندانی زندگی اْن بے کردار عورتوں سے گئی گزری ثابت ہوتی ہیں کہ بچوں سے منسلک رشتوں میں زہر بھرتی ہیں۔ زبان کی تیزی مرد پر سبقت رکھتی ہے۔ متوسط اور غریب گھروں میںعورت تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔ مرد کا ہاتھ اپر رھتا ہے۔ وہاں عورت مظلوم ومجبور نظر آتی ہے۔ انسان بچپن میں بہن بھائیوں کے درمیان کھیل کر بڑا ہوتا ہے۔ جہاں چچا، پھپو، کزنز کے پیار اور محبت کو سمیٹ کر زندگی کے لمحات کو خوشگوار بناتا ہے۔ جہاں سوائے پیار،خلوص اور محبت کے کچھ نظر نہیں آتا۔ جب جوانی کی سیڑھیاں چڑھتاہے تو ماں باپ اور بہنیں اْس کی جوانی میں رنگ بھرنے کے لئے ایک دلہن تلاش کرتے ہیں جو سب گھر والوں کی پسند ہوا کرتی ہے۔ جو آتے ہی ماں باپ ، بہن بھائیوں اور تمام رشتوں سے کاٹ دیتی ہے۔ اپنے رشتے انجانے بنتے چلے جاتے ہیں اور انجانے لوگ جو نئے رشتہ دار بنتے ہیں وہ آہستہ آہستہ قریب سے قریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جب اللہ اولاد کی نعمت سے نوازتاہے تو عورت بچوں پر اپنا حق اور شوہر اپنا حق جتاتا ہے۔ عورت دن بدن طاقتور اور مرد کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اْسے ادراک ہی نہیں ہوتا کہ رفتہ رفتہ زمین اْس کے پاؤں سے کھسک رہی ہے۔
بچے بڑے ہونے شروع ہوتے ہیں تو عورت بچوں کو دادی، دادا، پہوپہو اور چچا سے کاٹ دیتی ہے۔ ہر وقت اْن کی بْرائیاں اور نقائص بیان کرکے دلوں میں اْن رشتوں کے لئے نفرت قائم کردیتی ہے۔ وہی بچے جن کو دادا، دادی، چچا اور پہوپہو اپنے کندہوں پر سیر کراتے ہیں اْنکی موت پر انہیں کندھا دینے سے کتراتے ہیں۔ اس زہر کو ماں بچوں کے دل و دماغ میں پیوست کرتی رہی ہے۔ نفرت کا یہ بیج بچوں کے دماغوں میں خون کیطرح سرائیت کر جاتا ہے۔ بچے جوان ہو کر ان رشتوں کا نام لینا پسند نہیں کرتے۔عورت اس انتہائی نفرت کی آبیاری کرنے پر بھی اکتفاء نہیں کرتی۔ بلکہ مرد سے اْس کے تمام خونی رشتوں کا حق چھین لیتی ہے۔ بچوں کو نانا نانی ،خالہ اور ماموں دنیا کے آئیڈیل ترین ہستیاں بنا کر پیش کی جاتی ہیں۔ ماموں اور خالہ کی ہر زیادتی قابل قبول نظر آتی ہے۔ اپنے باپ اور بھائیوں سے جائداد میں حصہ نہ ملنے پر خاموش اور شوہر کو بھائیوں اور باپ سے لڑنے اور کورٹ کچہری پر اْکساتی ہے۔ مرد اگر اس پر احتجاج اور ری ایکٹ کرتاہے تو اْسکی ماں بہن اور بھائیوں کو بد دعاؤں اور گالیوں کی گردان سْننا پڑتی ہے۔ مرد کی ہر بات کاٹ دی جاتی ہے۔ اگر اپنا غصہ دکھائے تو ظالم ٹھہرتا ہے۔ نہ دکھائے تو سسک سسک زندگی گزارتا ہے۔ ان تمام بے بسی اور لاچاری کے باوجود مرد سالا ظالم ٹھہرتا ہے۔
یہ اْن پڑھے لکھے تہذیب یافتہ فیملیز کی بات کر رھا ہوں جن کی بیگمات اپنے شوہر کی بْرائیاں اور اپنی سہیلیوں کے مردوں کی تعریفیں کرتی نہیں تھکتیںْ۔لیکن جس بیج کو اس نے بچوں کے دل اور دماغ میں بویا ہوتا ہے۔ ایک دن اْسی مکافات عمل کا شکار ٹھہرتی ہے۔ بیٹی اپنی گھر چلی جاتیہے اور بیٹا ماں باپ کو گھر سے نکال باہر کرتا ہے۔ چونکہ بچپن میں ماں کی ہر نفرت انگیز بات کو پلے باندھ لیتا ہے۔ جو کام سے کر چکی ہوتی ہے ، ساس بننے پر مکافات عمل کا شکار نظر آتی ہے۔ اس کسمپرسی کے حالت میں عورت کو بوڑھا مرد یاد آتاہے جس کو ساری زندگی لعن طعن اور نفرت کا سامنا رہتا ہے جو مرد زمانے بھر کا بْرا، ظالم اور قابل نفرت ٹھہرتا ہے۔ ساری زندگی جسکی محنت کی کمائی کھا کر ناقدری کرتی ہے۔ پھر اپنے اْس بیٹے سے خرچہ مانگنے پر ہچکچاتی ہے۔ جس ڈر اور خوف کی دھاک اپنی ساس پر بٹھاتی ہے۔ آج بیعنہ اْنہی حالات کا سامنا کرتی ہے۔ اْس وقت اْسے اپنے مرد پر پیار آتا ہے۔ اب کیا پچھتائے جب منہ میں دانت اور آنکہوں میں بینائی نہ رہی۔ بڑھاپے میں عورت اس مرد کی خدمت اور قدر کرنا چاہتی ہے مگر کر نہیں پاتی۔ جو دکھ اور کرب ساری زندگی اپنے شوہر کو دیتی آئیہے اْسی کرب سے گزرتی ہے کْڑتی ہے۔ روز جیتی ہے روز مرتی ہے۔ بے بسی میں اپنی ہم جولیوں کے بچوں کی کامیابیوں پر دْکھی نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ جن رشتوں کو دھتکار چکی ہوتی ہے انکی طرف ہاتھ بڑھانا چاہتی ہے ،اْسی نگاہوں میں ظالم عورت کے روپ میں دکھتی ہے۔ مظلومیت قابل رحم تصور نہیں کی جاتی کیونکہ اپنے کرخت رویوں سے لیکن وہ بوڑھے بابا جی ساری زندگی بیوی اور اولاد کے ہاتہوں دھتکارے جانے کے بعد محلہ کی مسجد کو اپنا مسکن بناتے ہیں۔ اگر کوئی بچہ ترس کھا کر ساتھ بھی رکھ لے تو بہو سارا دن سودہ سلف کی خریداری ،بچوں کو سکول کی گاڑی تک چھوڑنے اور لانے پر معمور رہتے ہیں۔ مسجد میں اور اپنے دوستوں میں اپنے بیٹے کی جھوٹی تعریفیں کرتے ہیں۔ پوتی اور پوتوں کو کسی بات پر ٹوکنے سے متشدد نظروں اور الفاظ کی سختی برداشت کرتے ہیں۔ قارئین ! بتائیے مرد ظلم ٹھہرا یا عورت مظلوم ؟
عورت اپنے گھر کے رشتے جوڑتی اور سسرال کے رشتے توڑتی نظر آتی ہے۔ جب اپنی باری آتی ہے تو مظلوم بن جاتی ہے۔ مرد ہر جگہ پستہ ہے۔ گھر بیوی سے ، بچوں سے اور کام پر اپنے مالک سے۔ بچے امیر بچوں کو دیکھ کر کہتے ہیں کہ ابا تم نے ہمارے لئے کچھ کیا نہیں۔ وہ اْس مزدور کو بہول جاتے ہیں جو بارہ گھنٹے جاب کرکے آتا ہے ، سودہ خریدنے،سبزی اور دودھ لینے نکل جاتا ہے۔ لیکن عورت کو اطمینان نہیں دے سکتا۔ کچھ جگہ عورت اْسے حرام کمانے پر اْکساتی ہے۔ کہیں عورت اور کہیں مرد قصوروار نظر آتے ہیں۔ مرد کی مظلومیت کا رونا وہ رو نہیں سکتا۔ عورت اپنا اظہار کھل کر کرلیتی ہے۔ چند روز پہلے فرح آواز نیوز کے بھائی کا پاکستان انتقال ہوا۔ ہم لوگ دعائے مغفرت کے لئے وہاں پہنچے۔ تو بات غامدی صاحب پر چل رہی تھی۔ میرا یہ کہنا تھا کہ غامدی صاحب نے پردہ، سود ، داڑھی اور قادیانیت پر جو موقف اپنایاہے وہ چودہ سو سالہ اسلامی ہسٹری میں کسی نے نہئں اپنایا۔ وہ ماڈریٹ ہیں اور انکا پردہ پر نقطہ نظر بہت ہی لبرل ہے۔ قرآن میں اللہ نے عورت کا ستر ڈھانپنے کا حکم دیا ہے۔ میری بات آدھی تھی کہ تین بہنوں نے میری بات مکمل ہونے سے پہلے اْچک لی ، بہت اونچی آواز میں کہنا شروع کردیا کہ مرد کی نگاہیںنیچے کیوں نہیں ہوتیں میں کہا بہن آپ نے تو مجھے بات مکمل کرنے نہیں دی۔ یعنی عورت اپنا مدعا بھر پور انداز میں اٹھاتی ہے۔ مرد بھولنے لگے تو اْسے عورت یہ کہہ کر چْپ کرادیتی ہے کہ آپ ساری مرد ایک ہی جیسے ہیں۔ نہ تو سارے مرد ایک جیسے ہیں اور نہ ہی ساری عورتیں۔ گزشتہ سال جب ہم کرونا کی بیماری میں فوڈ کی تقسم کو وسیع پیمانہ پر کر رہے تھے۔ کئی ہماری بہنیں اور بیٹیاں اپنے گھر سے کھانا پکا کر بجھواتی تھیں۔ انکے دل میں یہ احساس تھا کہ ہمارے یہ بھائی لوگوں کی خدمت میں مصروف ہیں۔ انکی خدمت کرنا بھی ہمارا حق ہے۔ یہ تو انسانی رویوں پر منحصر ہے۔ انسانی رویوں کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔ قارئین ! فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ کہ مرد ظالم ہے یا عورت مظلوم ؟ یا پھر عورت مظلوم ہے یا مرد ظالم ؟ بہرحال جب مرد اکڑتاہے تو بد دماغ ہو جاتا ہے۔ اْسکی نظر میں عورت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی، اپنی انانیت میں گھر کے ماحول کو بے سکون کرتاہے ۔
میاں بیوی گاڑی کے دو پہئے ہوا کرتے ہیں بچے وہ گاڑی ہوتے ہیں جن کا چلنا ان پہیوں کے بغیر ناممکن ہوتاہے۔ ماں باپ پہیوں کے علاوہ اس گاڑی کو ایندھن فراہم کرتے ہیں۔ اسلئے جن گھروں میں جھگڑا یا میاں بیوی میں علیحدگی ہو جائے ، بچے بہت مشکلوں سے پل کر جوان ہوتے ہیں۔ باپ کے شفقت سے محروم بچے تخفظ جیسے المیہ کا شکار رھتے ہیں۔ عورت بچوں کے لئے ڈبل بوجھ اٹھاتی ہے۔ جاب، بچوں کی تعلیم اور گھر کے کام کاج۔ یہ وہ انتہائی لمحے ہیں جو بچوں کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ دراصل کسی جگہ عورت مظلوم اور کسی جگہ مرد ظالم۔ اور کہیں اور ظالم اور مرد مظلوم نظر آتے ہیں۔ مرد کو اپنی مردانگی کا زعم۔ عورت کو اپنے بچوں کی طاقت کا گھمنڈ۔ بہر حال میری رائے کے مطابق تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔
زندگی وہ گلاب ہے جسکی پکڈنڈی کانٹوں سے بھری ہے۔ اس پکڈنڈی کو عبور کرنے کے بعد ہی گلاب یا پھول کا حصول ممکن ہے۔ اسلئے اپنی زندگی کو خوشنما بنانے کے لئے کانٹوں سے گزرنا دیکھئے۔ اگر آپ دونوں میں اتفاق ہے تو کانٹوں بھری راہیں پھولوں کی کھیتی محسوس ہوگی۔ اللہ بارک ہمارے گھروں میں اتفاق اور محبت پیدا فرمائے تاکہ ہماری نسلیں مستقبل کے اچھے معمار ثابت ہوں جو ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا چین قرار پائیں۔ اللہ بارک نے مومنین مردوں کو اپنی عورتوں کے حقوق اور مومن عورتوں کو اپنے مردوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ سوچنا ہم نے ہے کہ ہم نے اللہ کو راضی کرناہے کہ اپنی انا کی تسکین کرنی ہے۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here