”ماں کی خدمت”

0
42
رعنا کوثر
رعنا کوثر

”ماں کی خدمت”

قارئین ابھی حال ہی میں میری والدہ کا انتقال ہوا ہے لہٰذا میں والدین کے حقوق کے بارے میں کچھ لکھنا چاہوں گی۔ آپ کے ماں باپ آپ کی زندگی ہوتے ہیں آپ ان کے لئے جتنا بھی کرلیں آپ کو لگتا ہے کہ آپ نے کم ہی کیا ہے۔ اسلام میں والدین کے بہت حقوق رکھے گئے ہیں ،خاص طور سے والدہ کے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر نے حضرت ابن عباس سے پوچھا کیا آپ یہ چاہتے ہیں کے جہنم سے دور رہیں اور جنت میں داخل ہوں؟ ابن عباس نے کہا کیوں نہیں خدا کی قسم یہ ہی چاہتا ہوں حضرت ابن عمر نے فرمایا آپ کے والدین زندہ ہیں ،ابن عباس نے کہا جی ہاں والدہ زندہ ہیں، ابن عمر نے فرمایا اگر تم ان کے ساتھ نرمی سے گفتگو کرو ان کے کھانے پینے کا خیال رکھو تو ضرور جنت میں جائو گے بشرطیکہ تم کبیرہ گناہوں سے بچے رہو۔ والدین کے ساتھ عاجزی اور انکساری سے پیش آیئے۔ ماں باپ کے احسانات کو یاد کرکے خدا کے حضور انتہائی دل سوزی سے رحم وکرم کی درخواست کیجئے۔ خدا کا ارشاد ہے !
اور دعا کرو کہ اے اللہ ان دونوں پر رحم فرما جس طرح ان دونوں نے بچپن میں میری پرورش فرمائی تھی یعنی اے اللہ بچپن کی بے بسی میں جس رحمت اور شفقت ومحبت سے انہوں نے میری پرورش کی اور میری خاطر اپنے عیش کو قربان کیا اب یہ بڑھاپے کی کمزوری میں مجھ سے زیادہ خود رحمت وشفقت کے محتاج ہیں خدایا میں ان کا کچھ بدلہ نہیں دے سکتا تو ہی ان کی سرپرستی فرما اور ان کے حال پر رحم کی نظر کر ماں کی خدمت کا خصوصی خیال رکھیئے ماں طبعاً زیادہ کمزور اور حساس ہوتی ہے اور آپ کی خدمت وخلوص کی زیادہ ضرورت مند ہوتی ہے۔ اس لئے دین نے ماں کا حق زیادہ بتایا ہے اور ماں کے ساتھ سلوک کی خصوصی ترغیب دی ہے قرآن پاک میں ارشاد ہے اور ہم نے انسان کو ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کی تاکید کی اس کی ماں تکلیف اٹھا اٹھا کر اس کو پیٹ میں لئے پھری اور تکلیف سے ہی جنا اور پیٹ میں اٹھائے اور دودھ پلانے کی یہ تکلیف دہ مدت دکھائی سال ہے۔ قرآن نے ماں باپ دونوں کے ساتھ سلوک کی تاکید کرتے ہوئے خصویت کے ساتھ ماں کے پیہم دکھ اٹھانے کا نقشہ بڑے ہی اثر انگیز انداز میں کھینچا ہے اور نہایت ہی خوبی کے ساتھ نفسیاتی انداز میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جان نثار ماں باپ کے مقابلے میں تمہاری ماں تمہاری خدمت اور خلوص کی زیادہ مستحق ہے۔ والدین کا جب انتقال ہوجائے تو خاندان والوں کو چاہیئے کہ آپس میں مل جل کر رہیں اور ایک دوسرے کے دکھ میں زیادہ شریک ہوں۔ ایک دوسرے کی خوشیوں کو خوب خوشی دلی سے محبت پیار سے نبھائیں۔ یہی والدین کے لئے صدقہ جاریہ اور ثواب کمانے کا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ آخر میں مجیب لودھی صاحب کی شکر گزار ہوں کے انہوں نے مجھے کچھ وقت دیا کے دوبارہ لکھ سکوں۔ اس دوران میں میرے بڑے بھائی کا بھی انتقال ہوا۔ ان سب کے لئے دعا کی درخواست ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here