وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ انہوں نے ملکی معیشت بحال کرنے کے لئے کابینہ کو پانچ سالہ روڈ میپ دیدیا ہے۔ وزیر اعظم نے کابینہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معیشت بحالی کے لئے مختلف اہداف کا تعین کیا گیا ہے جن کے تحت سرکاری اخراجات میں کمی، برآمدات میں اضافہ، ہر وزارت کی انفرادی کارکردگی کا جائزہ ، ایف بی آر کی ڈیجیٹلائزیشن ، اگلے برس برآمدات کا ہدف ستائس ارب ڈالر رکھنا اور سرخ فیتے کے خاتمے کی خاطر سپیشل انوسٹمنٹ فیسلیٹی ایشن کونسل کے کردار کو زیادہ فعال بنانا ہے۔وزیر اعظم نے معیشت بحالی کے لئے متعین مدت کو پنج سالہ منصوبہ قرار دیا ہے، معلوم نہیں کہ یہ ماضی والے پانچ سالہ منصوبوں کا تسلسل ہے یا صرف ایک بات تھی جو وزیر اعظم کی زبان سے نکل گئی۔بہرحال پانچ سالہ منصوبے پاکستان کی ترقی اور سماجی بہتری کے لئے بروئے کار آتے رہے ہیں ،کچھ کامیابیوں کے ساتھ ناکام بھی رہے۔پہلے پانچ سالہ پروگرام کے خاتمے کے بعد 1955 میں نئی تحقیق کی گئی۔ مردم شماری کے مطابق، 90% سے زیادہ آبادی دیہی علاقوں میں جبکہ صرف 10% شہری علاقوں میں رہتی تھی۔ مشرقی پاکستان میں، شہری تناسب مغربی پاکستان میں 18.1 فیصد کے مقابلے میں 4.0 فیصد تک کم تھا۔دوسرے پانچ سالہ منصوبے میں مشرقی اور مغربی پاکستان میں پانی اور بجلی کی فراہمی پر توجہ کی گئی۔دوسرا پانچ سالہ منصوبہ ایک بڑی کامیابی تھی لیکن یہ جزوی طور پر غیر ملکی امداد کی فراخدلی کی وجہ سے تھا، خاص طور پر امریکہ سے۔ دیہی ترقی کے لئے زرعی تکنیک کے ذریعے پیداوار کے طریقوں کو بہتر بنایا گیا۔ تیسرے پروگرام کی وجہ سے ملک میں معاشی تباہی آئی۔اس کے بعد جو پروگرام متعارف کرائے گئے وہ سیاسی عدم استحکام کی بنا پر موثر نہ ہو سکے۔اگست 1991 میں، حکومت نے آٹھویں پانچ سالہ منصوبہ کے لیے نجی سرمایہ کاری پر ایک ورکنگ گروپ قائم کیا۔ اس گروپ نے، جس میں سرکردہ صنعت کار، چیمبرز آف کامرس کے صدوراور سینئر سرکاری ملازمین شامل تھے، 1992 کے آخر میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ تاہم 1994 کے اوائل میں، آٹھویں منصوبے کا ابھی تک اعلان نہیں کیا گیا تھا، اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ 1993 میں یکے بعد دیگرے حکومتوں کی تبدیلی ہوئی۔ وزرا کو قلیل مدتی مسائل پر توجہ دینے پر مجبور کیا گیا۔ اس کے بجائے، مالی سال 1994 کے لیے اقتصادی پالیسی کی رہنمائی سالانہ پلان کے ذریعے کی جا رہی تھی۔جون 2004 سے، پلاننگ کمیشن نے پانچ سالہ منصوبے کو ایک نیا نام دیا – میڈیم ٹرم ڈویلپمنٹ فریم ورک دیا۔اس دور کے بعد پاکستان میں طویل المدتی پالیسیاں ترتیب دینا گویا ختم ہو گیا۔سب کچھ ہنگامی طور پر کیا جانے لگا۔ ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لئے ایک بار پھر طویل المدتی منصوبوں کی ضرورت ہے۔اس سلسلے میں کئی شعبوں پر توجہ دینا ہوگی جیسا کہ حکومتی اخراجات میں کمی۔سرکاری اخراجات سے مراد اشیا اور خدمات پر عوامی اخراجات ہیں اور یہ جی ڈی پی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ حکومتی اخراجات کی پالیسیاں جیسے بجٹ کے اہداف کا تعین، ٹیکسوں کو ایڈجسٹ کرنا، عوامی اخراجات میں اضافہ اور عوامی کام معاشی نمو کو بہتر کرنے میں بہت موثر ہتھیار ہیں لیکن اعلی افسران و وزرا کی مراعات ایک بوجھ ہیں۔اکتوبر 2023 کی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت اپنے 1.92 ملین ملازمین کو ادائیگی کرنے اور پنشن کی فراہمی پر چھ درجن سے زیادہ قسم کی مراعات اور دیگر اخراجاتکرتی ہے۔ عدلیہ سب سے زیادہ مراعات حاصل کرتی ہے، یہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروسز دوسرے کیڈرز کے پیشہ ور افراد کو بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے اور ٹیکس دہندگان کو مثبت تعاون نتائج کی بجائے خصوصی فوائد میں ہیرا پھیری کرتی ہے۔ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ تنخواہ میں نقد الاونسز کا تناسب اور کل لاگت میں اضافہ کی مقدار اور سرکاری رہائش کی سہولت، جو کہ ایک قسم کے فائدے کے طور پر دی جاتی ہے، کو سرکاری ملازمین کی کل لاگت میں کبھی بھی شامل نہیں کیا گیا۔گریڈ 20-22 کے افسران کی جانب سے ذاتی استعمال کے لیے سرکاری گاڑیوں کا استعمال بنیادی تنخواہ کے کل لاگت میں 1.2 گنا سے زیادہ اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ میڈیکل الاونسز اور میڈیکل بل ہیں۔معاشی بحالی کے لئے کاروبار کی شروعات کرنے والوں کے لیے، پاکستان کو اپنی سیاسی معیشت کی تشکیل نو کرنی چاہیے۔پچھلے کئی برسوں سے پاکستان اپنی برآمدات پچیس ارب ڈالر کرنے کا ہدف مقرر کر رہا ہے ۔ہر سال یہ ہدف حاصل نہیں ہو پاتا۔اس سال ستائیس ارب ڈالر کی برآمدات کا ہدف رکھا گیا ہے ۔ناقص پالیسی اور اچھی پالیسی برآمدات کو کیسے متاثر کرتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش نے صرف آٹھ ماہ میں دنیا کو نو ارب ڈالر کی گارمنٹس برآمد کیں حالانکہ وہ کپاس کی ایک گانٹھ تک پیدا نہیں کرتا۔ بد عنوانی ایک الگ ناسور بن چکی ہے جس کی شکایت پر پاکستان نے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کی ہے لیکن بلا مبالغہ یہ کونسل عسکری قیادت کی موجودگی اور تعاون سے فعال ہے ورنہ حکومتوں کی جانب سے ایسے اقدامات کو آہستہ آہستہ غیر موثر کرنے کا ریکارڈ موجود ہے۔وزیر اعظم مقامی چھوٹے کاروباروں کی حوصلہ افزائی، کرپشن کے خاتمے، سستی توانائی،سرخ فیتے کے خاتمے اور امن و امان جیسے معاملات کو طویل المدتی پالیسی کا واضح طور پر حصہ بنائیں تاکہ معیشت کی بہتری کی رفتار کی نگرانی ہو سکے۔
٭٭٭