بس کر ظالماں بچے مُک گئے نے ماواں دے !!!

0
23
رمضان رانا
رمضان رانا

ماضی میں صدیوں پرانا قدیم ملک فلسطین جس پر مختلف ادوار میں مختلف طاقتیں قابض رہی ہیں، کبھی رومن کا غلبہ تھا، کبھی خلافت راشدہ کے دور آزادی تھی، کبھی صلیبوں کا قبضہ رہا، کبھی صلاح الدین ایوبی بنا نظر آیا۔ کبھی سلطنت عثمانیہ کا حصہ بنا اور پھر برطانوی سامراجیت نے ترکوں کے خلاف ہندوستان کی مسلح فوج استعمال کرکے انوویڈ کیا جس کے بعد برطانوی سامراجی حکمرانوں نے بلغارسٹ خریدوفروخت معاہدے کے ذریعے یہودی نسل پرست گروہ زائنسٹوں کو1948میں بیچ دیا جس پر یورپین بھگوڑے نسل پرست یہودیوں کو مسلط کیا گیا جو آج اپنے سنگین اور قدیم نظریہ ریاست کے تحت فلسطین اور اس کے اردگرد ملکوں کے علاقوں پر توسیع پسندی کر رہا ہے جس کا نظریہ لشکریت میں شامل ہے کہ پہلے مزاحمت کا رقوم فلسطینی قوم کا قتل عام کیا جائے جس پر وہ عملدرآمد کر رہا ہے جس نے اب تک گزشتہ چند ماہ میں چالیس ہزار فلسطینی عوام مار ڈالے ہیں جس میں آدھے سے زیادہ بچے بوڑھے اور خواتین شامل ہیں جس پر پنجابی کے مشہور شاعر اور ادیب نظام دین کا شعرہ یاد آجاتا ہے کہ جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے دور میں برطانوی راج کے تحت ہندوستان کی فوج کی اموات پر لکھا تھا کہ بس کر ظالماں بچے مک گئے نے ماواں دے تاہم دنیا بھر کی حکومتوں میں یورپین حکمرانوں نے کلی طور پر اور آپشن حکومتوں نے جزوی طور پر وقت کے ہٹلر اور فرعونی طاقت اسرائیل کی مدد کی ہے۔ جس میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں جنہوں نے اپنے دور عسکریت میں ڈھائی ملین کورین، ڈھائی ملین ویت نامی ،دس لاکھ ہندوستانی تقسیم ہند کے وقت یا پھر ڈھائی ملین افغانی اور لاکھوں عراقی، لیبائی اور شامینوں کا خون کیا ہے۔ اس لئے ان کی نظر میں فلسطینی بچوں کا نظریہ فرعونیت میں قتل کرنا کوئی بڑا انسانی سانحہ تصور نہیں ہوتا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ فلسطین اور اسرائیل کے اس ہولناک اور خوفناک سانحہ پر مسلم دنیا غائب ہے جن کے حکمران زبانی کلامی بیانات جاری کرتے ہیں57ممالک کی مسلم گماشتہ تنظیم او آئی سی بھی خاموش ہے یہ جانتے ہوئے قبل اول بیت المقدس پر کسی غیر مسلم کا قبضہ ایسا ہی ہے جیسے کل کوئی خدانخواستہ اور نعوذ باللہ قبل دوم پر قبضہ کرلے تو پھر مسلم دنیا کیا کریگی۔ظاہر ہے جو اپنے قبل اول کو آزاد نہیں کرا سکتی ہے وہ کل قبل دوم کو کیسے بچا پائے گی اسی لیے یہ کہا جائے بجا ہوگا کہ اے قبل اول ہم تمام ڈیڑھ ارب مسلم مجرم ہیں جو آپ کی حفاظت کرنے میں قاصر رہے ہیں جن کو اللہ تعالی کبھی معاف نہیں کریگا۔ خاص طور پر عربوں کو عبرت کی سزا دے گا جس کا صرف اور صرف وقت کا انتظار کریں کہ کب خدا تعالیٰ کا قہر برسے گا بہرکیف فلسطینی وام کی مدد لازم نہیں ہے کہ کسی اسلحے باہتھیاروں سے مدد کی جائے جس طرح امریکہ کے جہاز بھر بھر کر اسرائیل کی مدد کو جا رہا ہے۔ مسلمانوں کو فلسطینی عوام کی سیاسی مالی اور آبادتی میں کھل کر مدد کرنا چاہئے جس میں سب سے پہلے وہ تمام امریکہ اور برطانیہ میں سیاستدان حکمران اور اہلکار جو فلسطینی عوام کے قتل عام کے تماشائی یا پھر اسرائیل کی حمایت کرتے ہیں ان کا کھل کر بائیکاٹ کیا جائے جس میں امریکہ میں آباد مسلمانوں کو کسی اس کانگریس مین، گورنر، یا دوسرے عہدیدار کی کسی قسم کی حمایت نہیں کرنا چاہئے جن کے ہاتھ فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئے ایسے تمام پروگراموں میں شرکت نہیں کرنا چاہئے جس میں اسرائیلی حمائتی نمائندہ آرہا ہو۔ کسی نمائندہ کو چندہ نہ دیا جائے۔ ناہی کسی امیدوار کو ووٹ دیا جائے یہ وہ عمل ہے جو انسانیت کی حمایت اور ظالم کی مخالفت کا درس دیتا ہے۔ بہرحال مسلم ریاست پاکستان میں پہلی مرتبہ سیاستدانوں حکمرانوں اور جنرلوں نے فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے جس سے فلسطینی عوام کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے کہ ایک ایٹمی طاقت پاکستان جو بذات خود بے حد انتشار اور خلفشار میں مبتلا ہے جس میں غیر ملکی طاقتیں مختلف ذرائع سے مداخلت کر رہی ہیں جس میں دنیا کی خطرناک اور بدترین زائنسٹ گروہ قابل ذکر ہے جس کی سازش ہمارے پاکستان میں پارلیمنٹ میں پائی گئی ہے کہ جب پارلیمنٹ نے فلسطین کی حمایت اور اسرائیل کے خلاف قرار داد منظور کی تو اس قرار داد کے خلاف پی ٹی آئی کے بعض ممبران نے منفی نعرے نامنظور کے لگائے ہیں جو آج خفیہ کل کلاں کھل کر سامنے آجائیں گے جن پر یہودی انٹرنیشنل تنظیم اربوں اور کھربوں خرچ کر رہی ہے تاکہ مسلم دنیا کی آزادی پسند قوم اور ایٹمی طاقت کو اس کے اندرونی معاملات میں مبتلا کر دو جو آج نظر آرہا ہے۔
٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here