راقم الحروف کا بھی یقین تھا کہ بنگلہ دیش بننے کے بعد دو قومی نظریہ ختم ہوچکا ہے کہ جس بنگالی قوم نے پاکستان بنایاتھا وہ پاکستان سے الگ ہوگئی باقی ماندہ صوبوں ماسوائے سندھ، صوبہ پنجاب، سرحد اور بلوچستان پاکستان کے حق میں نہ تھے کہ تقسیم ہند ہو جس کے باشندے ہزاروں سالوں سے رہ رہے تھے جن کا خون، نسل لیان رنگ تہذیب وتمدن ایک تھا جو صرف مذہب کے نام پر الگ تھلگ تھے چونکہ مذہب اختیاری ہوتا ہے جس کا کوئی جغرافیہ نہیں ہوتا ہے، آج کوئی حصہ وہ ہے کل بن سکتا ہے یا پھر دوبارہ ہندو بن سکتا ہے مگر وہ اپنی زبان نسل، رنگ تہذیب وتمدن نہیں تبدیل کرسکتا ہے چنانچہ ہندوستان کی بنا پر ہندوستان تقسیم ہوا جو دنیا کی پہلی ریاست تھی جو مذہب کے نام پر تقسیم ہوئی تھی جس میں ہندو مسلم خانہ جنگی قابل ذکر تھی جس کا فائدہ اٹھانے والا فرنگی سامراجی طاقت تھی جو برصغیر کی مذہب کے نام پر تقسیم کر رہا تھا لہٰذا ہندو مسلم جھگڑے کی بنا پر دو قومی نظریہ سامنے آیا جس پر1947میں ہندوستان تقسیم ہوگیا۔ بعدازاں1971میں جب پاکستان ٹوٹا تو بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا آج جس نے دو قومی نظریہ بحرہند میں دفن کردیا ہے جس کا مطلب ومقصد دو قومی نظریہ کی خالق اور مالک بنگالی قوم کو پاکستان سے الگ کردیا ہے جو آج پشیمان ہے کہ بنگالیوں کو پاکستان بنایا تھا ،اس کو توڑنے سے مسلمان کمزور پڑ چکا ہے۔ آج پھر بھارت کی ہندو مت کی بالاتری کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ قائداعظم محمد علی جناح کا دو قومی نظریہ بالکل صحیح تھا کہ برصغیر میں ہندو اور مسلمان اکثریت میں رہتے ہیں جو اب اکٹھے نہیں رہ سکتے ہیں جن کو الگ الگ ملک چاہیے تاکہ ایک دوسرے کا قتل نہ کر پائیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کی بنیاد پرست اور سخت گیر سیاست نے صدر ومسلم کا تفرقہ جاری رکھا ہے جس کی بنا پر ہندوستان کے30کروڑ مسلمان آج غلام بن چکے ہیں جس کی آزادی سلب ہوچکی ہے جو ہندوئوں کی نفرت اور حقارت کی شکار ہوچکی ہے جن کا فیوچر تباہ وبرباد ہو چکا ہے جو کبھی بھی خانہ جنگی کا باعث بن سکتا ہے تاہم کشمیر کے مقام پر دہشت گردی کا الزام پاکستان پر لگا کر بھارت میں طبلہ جنگ بج چکا ہے جس میں معاہدہ سندھ طاس توڑ دیا گیا دریائوں کا پانی بند کرنے کا بھی اعلان ہوچکا ہے جس سے لگتا ہے کہ مرتا کیا نہ کرتا والی پالیسی پر عمل درآمد کرتے ہوئے پاکستان کوئی بھی سخت ترین قدم اٹھا سکتا ہے ظاہر ہے جب پانی کے بغیر موت ہوگی تو پھر سب کو مار کر مرنا بھی جائیز ہوگا لہذا اب دنیا میں تیل، اور تجارت کے بعد پانی کی جنگ ہوگی جو ہندوستان کے مقام پانی پت کی جنگ بھی بن سکتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ کل پرتھوی راج پانی پت کی جنگ میں مزاحمت اور غوری حملہ آور تھا آج بھارت حملہ آور ہوگا اور پاکستان مزاحمت کار کہلائے گا۔ جس میں پرتھوی اور غوری میزائیل اسعتمال ہونگے۔ بہرحال بھارت کو ہوش کے ناخن لینے چاہئے جنگ بندی کی بجائے برصغیر کو متحد کرنے کا وقت ہے پوری دنیا میں اتحاد قائم ہو رہے ہیں جس برصغیر میں بھی یورپین یونین کی طرح اتحاد وقائم ہونا چاہئے جو مختلف زبانوں لسانوں اور سینکڑوں جنگوں ،انسانوں کی قتل وغارت گری پر متحد ہوچکا ہے جبکہ برصغیر میں ایک ہی نسل رنگ کلچر کے لوگ آباد ہیں جن کو نفرتوں اور حقارتوں کی بنا پر تقسیم کیا گیا ہے جس کا خاتمہ لازمی ہے ورنہ پورا خطہ کسی دوسرے نوآبادیاتی نظام کا شکار ہوجائے گا۔
٭٭٭