وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان عالمی سطح پر مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میںحملے کی کسی بھی طرح کی “غیر جانبدار اور شفاف” تحقیقات کے لیے تیار ہے۔وزیر اعظم نے اشتعال اور نفرت پر مبنی بیانات کی بجائے مناسب انداز میں بھارت کو غیر جانبدار عالمی تحقیقات کے لئے اپنی رضامندی ظاہر کی ہے۔پہلگام واقعہ کے بعد بھارتی حکومت اور میڈیا کے اشتعال انگیز طرز عمل کے بر عکس پاکستان نے تحمل اور ذمہ داری کا رویہ اختیار کر کے دنیا کو ایٹمی ریاست کے طور پر اپنی برداشت سے متاثر کیا ہے۔کاکول میں پاکستان ملٹری اکیڈمی میں پاسنگ آوٹ پریڈ سے خطاب کرتے ہوئے، وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا: “پہلگام کا حالیہ سانحہ بھارت کی جانب سے اس دائمی الزام تراشی کی ایک اور مثال ہے، جس کا خاتمہ ضروری ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ پاک فوج وطن کا دفاع کرنا جانتی ہے۔وزیر اعظم نے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ “استحصال کا نمونہ جاری رکھے ہوئے ہے،سنگین حالات میں قابل اعتماد تحقیقات یا قابل تصدیق شواہد کے بغیر بے بنیاد الزامات اور جھوٹے الزامات لگا رہا ہے”۔ پاکستان سے لگ بھگ چار سو کلو میٹر دور پہلگام میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے میں 26 افراد مارے گئے، جن میں زیادہ تر سیاح تھے، اس حملے کو سن 2000 کے بعد سے سب سے مہلک مسلح حملہ قرار دیا جا رہا ہے۔ حملے کی ذمہ داری مبینہ طور پر اب تک نامعلوم مزاحمتی محاذ (TRF) نے قبول کی ۔اس واقعے کے بعد سے، جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسائیہ ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف اقدامات کا اعلان کیاہے۔پاکستان نے بھارت کے اقدامات کا فقط جواب دیا ہے ۔ بھارت نے یکطرفہ طور پر اہم سندھ طاسمعاہدہ کو معطل کر دیا ہے ۔پاکستان نے شملہ معاہدے کو منسوخ کرنے اور بھارتی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود بند کرنے کی دھمکی دے کر جوابی کارروائی کی ہے۔بھارت نے حملہ آوروں کے سرحد پار سے روابط کا الزام لگایا، جب کہ پاکستان نے اس میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔پاکستان نے عالمی تحقیقات میں پہلگام واقعہ کے ساتھ جعفر ایکسپریس سانحہ کو بھی شامل کرنے کا کہا ہے ۔کوئٹہ سے پشاور جانے والی جعفر ایکسپریس میں کم از کم 380 مسافر سوار تھے۔اس ٹرین کو بلوچستان لبریشن آرمی (BLA) نے 11 مارچ کو ہائی جیک کر لیا ، مشکل راستوں کی وجہ سے سکیورٹی حکام کے لیے اس تک رسائی مشکل تھی۔ بی ایل اے نے بلوچ سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے 48 گھنٹے کا الٹی میٹم جاری کیا کہ دوسری صورت میں وہ یرغمالیوں کو پھانسی دے دیں گے۔ واقعہ کے رپورٹ ہونے پر بی ایل اے کے ترجمان جیئند بلوچ نے ایک بیان جاری کیا جس میں دعوی کیا گیا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 50 سے زائد اہلکار بشمول پاکستان آرمی کے جوان جو مبینہ طور پر چھٹی پر گھر جا رہے تھے، 214 یرغمالیوں کے ساتھ مارے گئے۔ سکیورٹی اداروں کی کامیاب کارروائی کے بعد مسافروں کی ہلاکت کے حوالے سے اغوا کاروں کے دعوے غلط نکلے۔14 مارچ 2025 کو ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے دعوی کیا کہ بی ایل اے کے کارندوں کو “افغانستان میں ہینڈلرز” اور بھارت میں ایک ماسٹر مائنڈ کی مدد حاصل تھی۔ انہوں نے کہا کہ بی ایل اے کے عسکریت پسندوں کو تعاون فراہم کرنے والوں اور ایک سرکردہ ماسٹر مائنڈ کی ہدایت پر سہولت فراہم کی گئی، جنہوں نے افغانستان سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے ان سے رابطہ کیا ۔پاکستان کی وزارت خارجہ نیکہاکہ افغانستان کے سہولت کاروں نے حملے کو منظم کرنے میں مدد دی اور اس حملے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے ۔جعفر ایکسپریس سے پہلے درجوں ایسے دہشت گردانہ حملے ہیں جن میں بھارت کا ہاتھ رہا ، کلبھوشن یادیو جیسے کردار بطور ثبوت موجود ہیں۔اب تک جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کا تجزیہ بتاتا ہے کہ یہ واقعہ بھارت کا فالس فلیگ آپریشن ہے۔تعجب اس امر پر ہے کہ بھارت ہر فالس فلیگ آپریشن کشمیر میں کر رہا ہے۔ جموں و کشمیر کا تنازعہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر طویل ترین زیر التوا تنازعات میں سے ایک ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادیں کشمیریوں کے حق خودارادیت اور جموں و کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کے طریقے کی توثیق کرتی ہیں۔ یہ بتاتی ہیںکہ ریاست جموں و کشمیر کا حتمی فیصلہ کشمیری عوام کی خواہش کے مطابق کیا جائے گا جس کا اظہار جمہوری طریقہ کار کے ذریعے اقوام متحدہ کے زیر اہتمام آزادانہ اور غیر جانبدارانہ رائے شماری سے ہو گا۔ بھارت 27 اکتوبر 1947 کے بعد سے جموں و کشمیر پر اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہا ہے جب اس نے جبری طور پر سابقہ شاہی ریاست جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا تھا۔ تاہم، ایک بڑی پیش رفت میں، 5 اگست 2019 کو، بھارت نے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کر دیا اور اس کی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت کو تبدیل کرنے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کو مجروح کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات کئے۔پاکستان نے ہمیشہ بین الاقوامی قانون ، شفاف تحقیقات، دوست ممالک کے تعاون اور اقوام متحدہ کی رہنمائی میں بھارت کے ساتھ اختلافات ختم کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔اس بار بھی پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔بھارتی قیادت کو اشتعال انگیزی کی بجائے پاکستان کے ساتھ عالمی تحقیقات مین تعاون و مذاکرات کا نظام فعال کر کے خطے کو امن کا مرکز بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔
٭٭٭