فیضان محدّث اعظم پاکستان رضی اللہ عنہ
محترم قارئین! اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر وحی نازل فرمائی کہ اے موسیٰ! اگر تم چاہتے ہو کہ میں تمہاری زبان پر تمہارے کلام سے ‘تمہارے دل میں خیالات سے’ تمہارے بدن میں تمہاری روح سے، تمہاری آنکھوں میں نور بصارت سے اور تمہارے کانوں میں قوت سماعت سے زیادہ قریب رہوں تو پھر محمدۖ پر کثرت سے درود بھیجو! ۖ و اصحابہ وسَلّم فرمان الٰہی ہے: ترجعہ: ہر نفس یہ دیکھے کہ اس نے قیامت کے لئے عمل کئے ہیں(پ٢٨، الحشر١٨) اے انسان! اچھی طرح سمجھ لے کہ تجھے برائی کی طرف لے جانے والا تیرا نفس تیرے شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے۔ اور شیطان کو تجھ پر تیری خواہشات کی بدولت غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ لہذا تجھے تیرا نفس جھوٹی امیدوں اور دھوکے میں ڈالے ہے جو شخص بے خوف ہوا اور غفلت میں گرفتار ہوا۔ اپنے نفس کی پیروی کرتا ہے، اس انسان کا ہر دعویٰ جھوٹا ہے اگر تو نفس کی رضا میں اس کی خواہشات کی اتباع کرے گا تو ہلاک ہوجائے گا اور اگر اس کے محاسبہ سے غافل ہوگا تو بحرعصیاں میں غرق ہوجائے گا۔ اگر تم اس کی مخالفت سے عاجز آکر اس کی خواہشات کی پیروی کرے گا تو یہ تجھے نارجھنم کی طرف کھینچ لے جائے گا۔ تفسیرابی اللّیث رحمتہ اللہ میں ہے: جب کوئی بندہ طلب آخرت کی وجہ سے اپنی گزشتہ زندگی پر غوروفکر کرتا ہے تو یہ تفکّراس کے دل کے لئے غسل کا کام دیتا ہے۔ فرمان مصطفیٰۖ ہے ایک گھڑی کا تفکّر سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ لہذا ہر عقلمند کے ضروری ہے کہ اپنے گزشتہ گناہوں کی مغفرت طلب کرے۔ جن چیزوں کا اقرار کرتا ہے ان میں تفکّر کرے اور قیامت کے دن کے لئے توشہ بنائے۔ امیدوں کو کم کرے توبہ میں جلدی کرے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا رہے۔ حرام چیزوں سے اعراض کرے اور نفّس کو صبر پر آمادہ کرے۔ خواہشات نفسانی کی اتّباع نہ کرے۔ کیونکہ نفس ایک بت کی طرح ہے جو نفس کی اتباع کرتا ہے وہ گویا بت کی عبادت کرتا ہے۔ اور جو اخلاص سے اللہ کی عبادت کرتا ہے وہ اپنے نفس پر جبر کرتا ہے۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ ایک دن بصرہ کے ایک بازار سے گزر رہے تھے کہ آپ کی نظر انجیر پر پڑی۔ دل میں انہیں کھانے کی خواہش ہوئی۔ دوکاندار کے پاس پہنچے اور کہا، میرے ان جوتوں کے عوض انجیر دے دو۔ دوکاندار نے جوتوں کو پرانا دیکھ کر کیا۔ ان کے بدلہ میں کچھ نہیں مل سکتا۔ آپ یہ جواب سن کر چل پڑے۔ کسی نے دوکاندار سے کہا۔ جانتے ہو یہ بزرگ کون تھے؟ وہ بولا: نہیں! اس نے کہا: یہ مشہور بزرگ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ تھے۔ دوکاندار نے جب سنا تو اپنے غلام کو ایک ٹوکری انجیروں سے بھر کردی اور کہا: اگر حضرت تجھ سے یہ ٹوکری قبول کرلیں تو تُو آزاد ہے۔ غلام بھاگا بھاگا آپ کی خدمت میں آیا اور عرض کی: حضور! یہ قبول فرمایئے! آپ نے کہا: میں نہیں لیتا، غلام بولا: اگر آپ سے قبول کرلیں تو میں آزاد ہوجائوں گا آپ نے جواب دیا: اس میں تیرے لئے تو آزادی ہے مگر میرے ہلاکت ہے، جب غلام نے اصرار کیا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے قسم کھائی ہے کہ دین کے عوض میں انجیر نہیں کھائوں گا۔ اور مرتے دم تک کبھی بھی انجیر نہیں لوں گا۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ کو مرض وفات میں اس بات کی خواہش ہوئی کہ میں گرم روٹی کا ثرید بنا کر کھائوں جس میں شہد اور دودھ شامل ہو۔ چنانچہ آپ کے حکم سے خادم یہ تمام چیزیں لے کر حاضر ہوگیا آپ کچھ ویران چیزوں کو دیکھتے رہے۔ پھر بولے:اے نفس: تو نے تیس سال متواتر صبر کیا ہے، اب زندگی کی اس آخری گھڑی میں کیا صبر نہیں کرسکتا؟ یہ کہا اور پیالہ چھوڑ دیا اور اسی طرح صبر کرتے ہوئے واصل بحق ہوگئے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے نیک بندوں یعنی انبیائ، اولیائ، صدیقین اور زاھدین کے حالات ایسے ہی تھے۔ حضرت سلیمان علیہ السّلام کا قول ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس پر قابو پایا وہ اس شخص سے زیادہ طاقتور ہے جو تن تنہا ایک شہر کو فتح کر لیتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ”اپنے نفس کے ساتھ بکریوں کے ریوڑ پر ایسے ایک جوان کی طرح ہوں کہ جب وہ ایک طرف انہیں اکٹھا کرتا ہے تو وہ دوسری طرف پھیل جاتا ہے جو شخص اپنے نفس کو فنا کردیتا ہے اسے رحمت کے کفن میں لپیٹ کر کرامت کی زمین میں دفن کیا جاتا ہے۔ اور جو شخص اپنے ضمیر کو ختم کر دیتا ہے اسے لعنت کے کفن میں لپیٹ کر عذاب کی زمین میں دفن کردیا جاتا ہے۔ حضرت یحیٰی بن معاذ رازی رضی اللہ عنہ سے ہے آپ فرماتے ہیں کہ اپنے نفس کا طاعت وبندگی کرکے مقابلہ کرو۔”ریاضت، شب بیداری، قلیل گفتگو، لوگوں کی تکالیف برداشت کرنا اور کم کھانے کا نام ہے کم سونے سے خیالات پاکیزہ ہوتے ہیں، کم بولنے سے انسان آفات سے محفوظ رہتا ہے۔ تکالیف برداشت کرنے سے درجات بلند ہوتے ہیں اور کم کھانے سے شہوات نفسانی ختم ہوجاتی ہے۔ کیونکہ زیادہ کھانا دل کی سیاہی اور گرفتار ظلمت کرتا ہے بھوک حکمت کا نور ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حق سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
٭٭٭٭٭