پاکستان چاند مشن سے غائب کیوں؟

0
19

پاکستان نے روایتی حریف بھارت کے مقابلے میں پاکستانی مشن ”آئی کیو ب قمر ” کو چاند پر روانہ کر دیا ہے لیکن اس کو بھارت کے مقابل کہنا جگ ہنسائی کا سبب بنا رہا ہے کیونکہ بھارت نے مشن چندریان کو اپنے بل بوتے پر خلا میں بھیجا ہے جس میں ان کی تکنیکی ٹیم، خلا باز تک اپنے تھے جبکہ پاکستان کے مشن میں ابھی تک چاند پر جانے والے خلا بازوں کی کوئی اطلاع نہیں ہے لگتا ہے اس میں عملہ ، تکنیکی سٹاف سب کچھ چینی ہے بس راکٹ پر شاید پرچم ہی پاکستانی ہوگا لیکن پاکستان عالمی سطح پر یہ ڈھونڈارا پیٹ رہا ہے کہ اس نے بھی بھارت کے مقابلے میں چاند پر سیٹیلائٹ روانہ کر دیا ہے ۔اس کہانی کی ابتدا 2022 میں اس وقت ہوئی جب چینی نیشنل سپیس ایجنسی (سی این ایس اے) نے ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن کے ذریعے اپنے رکن ممالک کو چاند کے مدار تک مفت پہنچنے کا ایک منفرد موقع فراہم کیا۔ایشیا پیسیفک سپیس کارپوریشن آرگنائزیشن (ایپسکو) سنہ 2008 میں قائم کی گئی تھی جس کا مقصد اس خطے میں خلائی تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ایپسکو کے رکن ممالک میں پاکستان، بنگلہ دیش، چین، ایران، پیرو، جنوبی کوریا، تھائی لینڈ اور ترکی شامل ہیں۔اسلام آباد کے انسٹیٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی (آئی ایس ٹی) کی جانب سے ایک پروپوزل (تجویز) تیار کر کے ایپسکو کو بھجوایا گیا جو منظور کر لیا گیا اور پھر پاکستان میں خلائی تحقیق کے ادارے سپارکو کی معاونت کے ساتھ آئی ایس ٹی کی ایک ٹیم نے اس سیٹلائٹ پر کام شروع کیا جس میں مختلف شعبوں کے طلبا بھی شامل تھے یوں لگ بھگ دو سال کی محنت کے بعد سیٹلائٹ ‘آئی کیوب قمر’ کو مکمل کیا جا سکا۔مشن کا نام ڈاکٹر خرم کی جانب سے تجویز کیا گیا تھا۔ کیونکہ یہ مشن چاند کی جانب جا رہا ہے اس لیے اس میں ‘قمر’ یعنی چاند موجود ہے۔ آئی کیوب اس لیے کیونکہ آئی ایس ٹی میں موجود سمال سیٹلائٹ پروگرام کا نام ‘آئی کیوب’ ہے اور اس کے تحت انسٹیٹیوٹ کی جانب سے سنہ 2013 میں پہلی سیٹلائٹ ‘آئی کیوب ون’ کے نام سے لانچ کی گئی تھی۔ پاکستانی سائنسدانوں نے پہلا موسمیاتی راکٹ رہبر اول خلا میں روانہ کیا تھا۔ اس مشن کی سربراہی پاکستان کے پہلے نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام نے کی تھی۔ تاہم اس ٹیم اور پراجیکٹ کے سربراہ ڈاکٹر طارق مصطفیٰ نے سنہ 2021 میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے اس خلائی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کی وجہ بیان کی تھی۔پاکستان نے چین کی مدد سے کئی سیٹلائٹس لانچ کیں۔ تو ایک ایسا ملک جو 1962 میں خود اپنا راکٹ لانچ کر رہا تھا، اب سیٹلائٹس لانچ کرنے کے لیے چین پر منحصر کیوں ہے جبکہ پڑوسی ملک انڈیا چاند اور مریخ تک اپنے خلائی مشنز بھیج رہا ہے۔سب جانتے ہیں کہ امریکا اور چین کے بعد جاپان تیسری بڑی اقتصادی طاقت ہے اور اس کا خلائی پروگرام بھی اسی تناسب سے ہے۔مگر گزشتہ برس نومبر میں چاند پر اترنے کی پہلی جاپانی کوشش ناکام ہو گئی تھیروس کا خلائی پروگرام امریکا سے بھی پرانا ہے۔ چار اکتوبر انیس سو ستاون کو سوویت یونین نے پہلا مصنوعی سیارہ سپوتنک خلا میں بھیج کر امریکا کو چیلنج کیا۔ اپریل انیس سو اکسٹھ میں پہلے سوویت انسان یوری گگارین نے ستائیس ہزار کلومیٹر کی اونچائی پر زمین کے گرد چکر لگا کے امریکی خلائی ادارے ناسا کو چکرا دیا۔صدر جان ایف کینیڈی نے اعلان کیا کہ ساٹھ کا عشرہ ختم ہونے سے پہلے امریکا چاند پر انسان اتار دے گا اور سولہ جولائی انیس سو انہتر کو نیل ا?رمسٹرانگ کے چاند پر پہلے انسانی قدم نے یہ دعوی سچ کر دکھایا۔اس کے بعد سوویت یونین نے سویوز خلائی اسٹیشن خلا میں بھیجا۔امریکا نے جواباً اسکائی لیب خلا میں بھیجی۔ دونوں ممالک نے دوسرے ممالک کے مصنوعی سیارے خلا میں بھیجنے کا کاروبار بھی شروع کیا۔اور پھر چین بھی اس دوڑ میں شامل ہو گیا۔گزشتہ بیس برس کے دوران چاند پر جو تین مشنز اتارے گئے۔ وہ تینوں چینی تھے۔روس نے سینتالیس برس کے وقفے سے گزرے بیس اگست کو لونا پچیس مشن چاند کے مشکل ترین قطبِ جنوبی میں اتارنے کی ناکام کوشش کی۔تین روز بعد ( تئیس اگست ) بھارت پہلا ملک بن گیا جس نے چاند کے جنوبی کرے میں کامیاب لینڈنگ کر کے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا۔بھارتی خلائی پروگرام کی اس اعتبار سے بھی تعریف ہو رہی ہے کہ یہ کامیابیاں بہت کم بجٹ میں حاصل کی گئیں۔مثلاً چاند پر اترنے والے چندریان تھری مشن پر چھ ارب روپے لاگت آئی۔یہ رقم بالی وڈ کی تین بلاک بسٹر ہندی فلموں کے بجٹ کے برابر ہے اور ناسا کے اسی طرح کے خلائی مشنز کی لاگت کا صرف بیس فیصد بنتی ہے۔بھارت کا خلائی بجٹ کل قومی آمدنی کے محض صفر اعشاریہ 33 فیصد کے برابر ہے یعنی ایک فیصد کا بھی ایک تہائی۔بھارت کا اگلا ہدف خلا میں اسپیس اسٹیشن بھیجنا اور چاند پر انسانی مشن اتارنا ہے۔۔
٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here