قادر مگسی کے انکشافات امتیاز چانڈیو کے آئینے میں !!!

0
24
کامل احمر

ہر ہفتہ یہ ہی ہوتا ہے کہ ہم تیاری تو کسی اور موضوع کی کرتے ہیں لیکن روزانہ نئی سوچ ہوتی ہے کچھ دن پہلے کی بات ہے کہ ہم نے اس دور کے سب سے بڑے دہشت گرد بین الاقوامی شہرت یافتہ کے حامل اور سب سے بڑے چھوٹے انسان اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کے بارے میں لکھنا تھالیکن یہ سوچ کر کہ نتن یاہو کی کرتوت جاری رہے گی۔ پھر لکھ سکتے ہیں ابھی رہنے دیا جائے۔ اور وہ تو شاید پڑھ بھی نہ سکے۔ لہذا ارادہ بدل دیا اور امتیاز چانڈیو، سندھ کا مشہور وی لاگر اور اپنے وقت میں سندھ کا نتن یاہو، قادر مگسی زندہ ہے تو اس کا طویل انٹرویو دیکھنے بیٹھ گئے۔ ہم اس شخص کا تعارف کراتے چلیں جو رئیس امروہوی کو صرف رئیس امروہوی کہتا ہے اور بولتا ہے کہ انہوں نے اردو کا شوشہ چھوڑا تھا۔ اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے، انٹرویو میں امتیاز چانڈیو بیچ بیچ میں کچھ ایسے سوال کرتے تھے اور مسکراتے تھے جیسے انہیں قادر مگسی کے جھوٹ کا پتہ ن ہیں موصوف کی حالیہ عمر صرف64سال ہے۔ ٹھٹہ کی پیدائش ہے۔ بچپن سے کھلنڈرا مزاج تھا۔1981میں لیاقت میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بننے کے لئے سندھی کوٹہ پر داخل تو ہوگئے لیکن کچھ نہ کرسکے۔ گوگل کو کھنگالا لیکن صرف اتنا معلوم ہوا کہMBBSمیں داخلہ لیا تھا۔ لیکن دوسرے حصہ میں خاموشی سے کہہ گئے میں ڈاکٹر ہوں یا تھا یا نہیں تھا۔ اور کسی حقدار کی سیٹ گنوا دی لیڈری کا شوق اٹھا اور1982میں کالج کی جئے سندھ طلبا فیڈریشن میں داخل ہوگئے۔ میڈیکل کے پیشے کو کیوں چھوڑا ہے یہ اگر ہم ان سے پوچھیں تو بتائینگے نہیں۔ بھٹو کے آنے کے بعد سندھ میں بھونچال آگیا۔ اچھے پڑھے لکھے لوگ گمنام ہوگئے اور آج تک گمنام ہیں بھٹو صاحب کے دور کا ایک کارنامہ جو انکے ممتاز علی بھٹو نے کہا تھا کہ وزارت ملتے ہی اندھا دھند سندھیوں کے لئے جو نااہل تھا۔ کیونکہ اہل کو سفارش کی ضرورت نہیں تھی۔ سفارشیں کیں انکے دور کے دو کارنامے ہیں۔ پہلا یہ کہ لیاقت میڈیکل کالج میں انٹر آرٹس کے لڑکے داخلہ دے دیا گیا کالج کے ایڈمنسٹریٹر ڈاکٹر ایم ایم حسن(بہاری) تھے۔ اور جب ایک پروفیسر(خاتون) نے ان سے شکایت کی کہ اگر یہ لڑکا کلاس میں رہے گا تو میں نہیں پڑھا سکتی۔ کالج سے جانا پسند کرونگی۔ ایم ایم حسن صاحب کا جواب تھا بہتر ہے آپ چلی جائیں اور تیسرے روز وہ اپنے شوہر جو سندھ یونیورسٹی میں نیوکلیر فزکس کے پروفیسر تھے(نام بھول گئے) کے ساتھ واپس لیبیا چلی گئیں۔ ایک دوسرا واقعہ سامنے آیا جب ممتاز بھٹو نے ایک بی اے پاس کوPIDمیں میں بڑی پوزیشن کے لئے بھیجا۔ جس کے لئے بی۔ای کی ڈگری درکار تھی لیکن سندھی میں بی۔اے کو بی ایچ لکھا جاتا ہے اور جب اُسے ملازمت دینے سے انکار کیا گیا تو زور دیا گیا۔ ”سائیں ابھی اسکو تو ایڈمنسٹریٹر کی ملازمت ملنی ہے وہ کونسا، کھمبوں پر چڑھ کر بجلی کے تار لگائے گا۔
1970ء کے بعد سندھ تعلیمی میدان میں پستی کی طرف جانے لگا، یہاں ہم قادر مگسی کو بتاتے چلیں کہ1970میں ایم ایس سی کی کلاس میں31طلباء میں19پنجاب کے10سندھ کے اردو اسپکینگ اور صرف دو سندھی طلبا تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سندھ کے وڈیروں نے ہمیشہ سے سندھیوں کو نیچے بٹھانے کا سبق دیا کہ وہ بے چارے آفیسر کے کمرے میں جوتیاں بغل میں دبا کر جاتے تھے یہ سنی سنائی نہیں ہے آنکھوں دیکھی باتیںہیں۔ ہمیں نہیں معلوم یہ کس سندھ کے سندھی عوام کی بات کرتے ہیں۔ انہیں1981ء کی تاریخ معلوم ہے لیکن یہ بتاتے چلیں کہ سندھ نے تعلیم، لٹریچر، فنون لطیفہ کے میدان میں50اور ساٹھ کی دہائی میں بڑے بڑے مفکر پیدا کئے صرف دو نام لکھتے چلیں۔ جمال ابڑو اوربشیر موریانی جمال ابڑو، جج کے عہدے سے ریٹارڈ ہوئے اور انہوں نے سندھی لٹریچر کو بڑی بڑی دھانسو کہانیاں دیں جن کے ترجمے انگریزی زبان میں ہوئے جو شاید قادر مگسی کی سمجھ میں نہ آئیں۔ کہ انکا ادب شاعری سے کوئی تعلق نہیں آنکھیں زرداری کے سائے میں کھولیں اور چالبازی کی سیاست دیکھی انکا یہ بھی انکشاف تھا کہ1947میں مہاجر ننگے بچُے پھٹے پرانے کپڑوں میں آئے تھے پائوں میں چپلیں بھی نہ تھیں یہ ہی بات ایک نابالغ صحافی اور ایکسپریس ٹی وی کے اینکر نے اپنے پروگرام میں کہہ ڈالی تھی۔ اور کالم کی شکل میں چھپی تھی۔ لیکن دو سال بعد ابھی کچھ ماہ پہلے انہیں خیال آیا کہ پاکستان کو مہاجروں نے نہیں پنجابیوں نے بگاڑا ہے۔ رشوت لینے کا چسکا بھی پنجابی بیورو کریٹ نے ڈالا ہے لہذا یہ پڑھ کر ہم نے انہیں خراج تحسین پیش کیا۔
ہم چاہینگے کہ امتیاز چانڈیو قادر مگسی کے ساتھ تیسرا وی لاگ کریں اور شاید انکی عقل درست ہوجائے۔ انکی یادداشت تازہ کرتے چلیں1945میں تو وہ اس دنیا میں نہیں تھی۔ اس وقت سندھ میں مسلم لیگ کے نوجوان لیڈر قاضی اکبر تھے۔ جو کانگریس کے جی ایم سید کے مقابلے میں تھے یقیناً اور ہم چشم دیدگواہ ہیں کہ وہ ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والوں کے لئے اسٹیشن(حیدر آباد) بریانی کی دیگیں پہنچاتے تھے بڑے ہی سلجھے مزاج کے پڑھے لکھے سیاست دان تھے سندھ میں صحافتی دور کا آغاز بھی قاضی اکبر نے کیا تھا۔ سندھی اخبار ”عبرت” نے جنگ کے مقابلے میں سندھیوں کو آگاہی دی تھی۔ قادر مگسی کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ہجرت کرنے والوں میں ہندوستان سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ آئے تھے۔ جنہوں نے تعلیمی اداروں کو سنبھالا تھا۔ مشہور سکولوں میں نور محمد ہائی اسکول، گورنمنٹ ہائی اسکول، جامعہ عربیہ اور غلام حسین ہدایت اللہ کا شمار ٹاپ کے اسکولوں میں تھا۔ اور اس زمانے میں ظفر احمد(علیگڑھ) اورمحمد علی ٹوینو۔ ہیڈماسٹرز کے عہدے پر نام بنا چکے تھے۔ ہم چاہیں گے کہ امتیاز چانڈیو جن کے پروگرام ہم شوق سے دیکھتے رہے ہیں ایسے لوگوں کو میڈیا پر لا کر اپنے خلاف لوگوں کو نہ کریں ہم جانتے ہیں کہ یہ انکا قصور نہیں۔ لیکن ہم قادر مگسی جیسے لوگوں کو تاریخ بدلنے کا حق بھی نہیں دینگے۔ آصف علی زرداری جس نے سندھ کو ڈبو دیا ابھی بھی قادر مگسی کا دوست ہے۔ دونوں جیل میں ملے تھے۔ قادر مگسی پر کئی ہنگامے کرانے کا الزام ہے اور ایک ہزار سے زیادہ مہاجروں کو قتل کروانے کا بھی الزام ہے2003میں اس شخص کو بری کردیا گیا تھا۔ ہر الزام سے جیسے زداری اور نوازشریف دودھ کے دھلے ہیں۔
یہ سن کر بھی ہنسی آئی کہ قادر مگسی کی نظر میں نون لیگ کے دو لوگ بڑے ذہین سیاست دان ہیں ایک مریم نواز اور دوسرا پرویز رشید، قادر مگسی صاحب یہاں بیٹھ کر وہاں اپنا مستقبل بنا رہے ہیں۔ اور خود کو لیڈر کہتے ہیں جب کہ ان ر کافی الزام ہیں۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ زرداری ان کے لئے منی لانڈرنگ کا کام دینے کا سوچے گا۔ عمران خان کو وہ برا نہیں کہتے اپنے لئے جگہ بناتے ہیں کہ اگر عمران رہا ہوگیا تو ان کے لئے بھی اچھا ہوگا۔ انہیں بتاتے چلیں کہ یہ گندی سیاست جو زرداری سندھیوں کے خلاف کھیل رہا ہے وہ زیادہ نہیں چلے گی وہ کہتے ہیں کہ سندھی خوف سے نکلیں یہ نہیں بتایا کیسے؟
ایک بات اور کہنا تھی کہ وہ اپنی پیدائش سے پہلے کی باتوں کو اپنے انداز سے نہ بتائیں یہ سن کر ہنسی آئی کہ جناح(وہ قائداعظم نہیں کہہ سکتے) نے بنگلہ دیش میں1948میں جاکر کہا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ انکا کہنا کہ سندھی کو آٹھویں جماعت میں نکال دیا گیا۔ درست ہے یہ1954کی بات ہے لیکن کیا وہ جواب دینگے کہ18ویں ترمیم کے بعد تو سندھیوں کے ہاتھ میں بیٹر لگی تھی۔ کیوں سندھی کو نصاب میں شامل نہیں کیا گیا اور اسکولوں میں کلاس میں طلباء کی جگہ بھینسوں اور گائیوں کو کیا تعلیم کے لئے باندھا جاتا رہا ہے۔ نوازشریف اگر انکی نظر میں قد آور ہے تو زرداری کیوں قد آور نہیں بن سکتا1970کے بعد سندھ جس غلط راستے پر چلا ہے اور چل رہا ہے۔ اس کا قصور وار کیا مہاجر ہے؟ اگر تھوڑی سی شرم ہے تو جواب دیں۔ سندھ ترقی پسند پارٹی کے چیئرمین ہو کر اگر کچھ نہیں کرسکتے تو بہتر ہے امریکہ میں بیٹھ کر زرداری کے پیسوں سے عیش کرو۔ اور اگرڈاکٹر ہو تو لوگوں کی خدمت کرو۔ وہاں ایک اور بابر غوری بیٹھا ہے۔ زرداری کے ساتھ ساز باز کرنے والے الطاف بھائی کا امتیاز چانڈیو نے اس کا بھی کھڑے کھڑے وی لاگ کیا تھا۔ اور ہنسی آتی تھی وہ بھی قادر مگسی کی طرح بگلا بھگت بن رہا تھا۔
٭٭٭٭٭

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here