تیسری عالمی جنگ کے آثار!!!

0
63

امریکا اسرائیل اور ایران کے درمیان سیز فائر ہوگیا۔ سیز فائر سے پہلے ایران نے قطرا ور عراق میں امریکی اڈوں پر میزائل داغے۔ اس کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان کیا۔ ان کے سیز فائر کا اعلان کافی دلچسپ ہے۔ انھوں نے اپنے سیز فائر کے اعلان میں کہا ہے کہ میں ایران کا شکر گزار ہوں کہ اس نے قطر اور عراق میں ہمارے اڈوں پر میزائل پھینکنے سے پہلے ہمیں بتایا، اسی لیے ہمارا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔ بلکہ ہمارا کوئی بھی نقصان نہیں ہوا ۔ اب ایران کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔ اس لیے اب امن کا وقت ہے اور سیز فائر کا وقت ہے۔ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کو امریکا نے فرینڈلی حملوں کے طو رپر لیا ہے۔ امریکا نے ان کو جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔ اب تو یہ بات صاف ہے کہ امریکا سیز فائر کی کوشش کر رہا تھا لیکن ایران نے کہا کہ جب تک وہ کسی امریکی اڈے پر حملہ نہیں کریں گے، وہ سیز فائر نہیں کریں گے۔ جس کے بعد انھیں قطر کی بیس پر حملہ کرنے کی اجازت دی گئی۔ اور ایران نے امریکا کی اجازت سے امریکی بیس پر حملہ کیا۔ جس کے بعد سیز فائر ہو گیا۔ ایران نے قطر پر میزائل پھینکے۔ قطر نے ہی سیز فائرمیں کردار ادا کیا ہے۔ قطر ہی ثالث تھا۔ کیا ایسا نہیں تھا کہ ثالث نے ہی خود پیش کیا کہ اچھا جنگ بند کرنی ہے تو مجھے ما رلیں۔ یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے۔تاہم دوسری جانب ایران اسرائیل جنگ میں امریکہ کے شرکت کرنے کے باعث مشرق وسطیٰ میں تیسری عالمی جنگ کے نمایاں آثار نظر آرہے ہیں، دوسری جانب ایران کی جانب سے امریکہ کے حملے کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر امریکی اڈوں پر حملوں نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ یہ جنگ یہاں ختم نہیں ہوگی، امریکہ نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو نشانہ بناتے ہوئے جس نوعیت کے ”بنکر بسٹر” بم استعمال کیے ہیں، وہ صرف ہدف کو تباہ کرنے کی کارروائی نہیں، بلکہ ایک بڑی اور طویل جنگ کے دروازے پر دستک دینے کے مترادف ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کی تصدیق کر دی ہے، جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم نے نہ صرف اس کارروائی کی تعریف کی بلکہ اسے ”ایک تاریخی فیصلہ” قرار دیا۔ اس کے برعکس، دنیا کے بیشتر رہنما، بالخصوص یورپی یونین، چین، روس، اور ترکیہ نے اس حملے کو ایک ”خطرناک پیش رفت”کہا ہے، جو مشرق وسطی کو مزید عدم استحکام سے دوچار کر دے گی۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ اپنی دفاعی تیاریوں اور قابل بھروسہ سمجھے جانے والے بین الاقوامی تعلقات پر فکر و تجزیہ کا تقاضا کرتا ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام کئی دہائیوں سے اسرائیل اور امریکہ کے لیے ”وجودی خطرہ” بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ 2015 میں طے پانے والا جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن (JCPOA) اس مسئلے کا ایک سفارتی حل تھا، جس سے ایران نے وقتی طور پر جوہری سرگرمیوں میں کمی کی اور عالمی نگران اداروں کو معائنہ کرنے کی اجازت دی۔ صدر ٹرمپ نے 2018 میں یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کی، جس کے بعد تناو بڑھتا گیا ۔کچھ ہفتے قبل ایران اسرائیل جنگ سے پہلے تک ایران و امریکہ میں اس بابت مذاکرات جاری تھے جو اسرائیلی مداخلت پر ختم کر دئیے گئے۔ امریکہ نے ایران کے نطنز، فردو اور اراک کے قریب واقع جوہری مراکز کو بی ٹو بمبار طیاروں پر نصب بنکر بسٹر بموں سے نشانہ بنایا ہے۔ یہ بم زمین کے اندر 60 میٹر گہرائی تک رسائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کے استعمال کا مطلب یہ ہے کہ حملے کا مقصد صرف پیغام دینا نہیں بلکہ مستقل تباہی ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق، نطنز کا سینٹری فیوج نیٹ ورک بری طرح متاثر ہوا ہے، جبکہ اراک میں موجود بھاری پانی کے ری ایکٹر میں آتشزدگی کے شواہد ملے ہیں۔ یہ حملہ اس پس منظر میں ہوا ہے کہ صدر ٹرمپ دوبارہ انتخابی سیاست میں سرگرم ہیں۔ اپنے پرانے بیانیئے سے انحراف کرتے ہوئے اب وہ ایک جارحانہ خارجہ پالیسی کے حامی دکھائی دے رہے ہیں۔ کچھ مبصرین کے مطابق یہ اقدام ان کے سیاسی زوال کو روکنے کی کوشش ہے تاکہ اسرائیلی لابی، دفاعیاسٹیبلشمنٹ اور قدامت پسند حلقوں کی حمایت حاصل کی جا سکے۔یہ کوئی راز نہیں کہ اسرائیل طویل عرصے سے ایران کے جوہری پروگرام کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا ۔اس حملے کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم کا فوری بیان اور ”ٹرمپ کو سلام” کہنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ حملہ صرف امریکی پالیسی کا نتیجہ نہیں، بلکہ اسرائیلی اثر و رسوخ کا مظہر ہے۔یوں دکھائی دیتا ہے جیسے امریکہ اسرائیل کا آلہ کار بن چکا ہے اور اس کی مرضی سے دنیا میں جنگیں چھیڑ رہا ہے۔یہ تاثر امریکی عالمی ساکھ کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ روس نے حملے کو ”بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیا ہے، جبکہ چین نے اسے ”علاقائی امن پر حملہ” قرار دیا ہے۔ یورپی یونین نے ہنگامی اجلاس بلانے کا عندیہ دیا ہے تاکہ مشرق وسطی میں کشیدگی کو روکا جا سکے۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے فریقین کو تحمل اور سفارتی راستہ اپنانے کی تلقین کی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ تشویش اس وقت عرب دنیا میں پائی جاتی ہے، جو ایران کے ساتھ بھی متذبذب تعلقات رکھتی ہے اور امریکہ کی فوجی موجودگی سے بھی خائف ہے۔ پاکستان نے ان حملوں پر فوری ردعمل دیتے ہوئے ”مشرق وسطی میں ہر قسم کی عسکری جارحیت” کی مخالفت کی ہے۔ دفترِ خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”پاکستان خطے میں امن، سلامتی اور خودمختاری کے اصولوں کا حامی ہے اور کسی بھی ایسی کارروائی کو درست نہیں سمجھتا جو ان اصولوں کی خلاف ورزی کرے”۔ پاکستان کا یہ مؤقف بین الاقوامی قانون، اقوامِ متحدہ کے منشور اور خطے میں امن کی خواہش سے ہم آہنگ ہے۔پاکستان کی جغرافیائی حیثیت، ایران کے ساتھ مشترکہ سرحد، اور مشرق وسطی میں پاکستانی تارکینِ وطن کی بڑی تعداد کے پیش نظر، کسی بھی بڑی جنگ کے اثرات فوری اور شدید ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں پاکستان کا غیر جانبدار، لیکن اصولی اور پرامن موقف ہی دیرپا مفاد میں ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ایران، ترکیہ، قطر، سعودی عرب، اور چین کے ساتھ فوری رابطے کرے تاکہ کسی بھی ممکنہ بگاڑ کا توڑ مشترکہ حکمت عملی سے کیا جا سکے۔ اسلامی دنیا کو اس معاملے پر متحد ہونے کی ضرورت ہے، اور پاکستان اس کی قیادت کر سکتا ہے۔اگر خطہ جنگ کی طرف بڑھتا ہے تو ایران یا افغانستان سے انسانی ہجرت ممکن ہے۔ پاکستان کو اقوامِ متحدہ کے اداروں کے ساتھ مل کر ممکنہ صورتِ حال سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے۔ پاکستانی میڈیا کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا، تاکہ عوام اشتعال یا افواہوں کا شکار نہ ہوں۔ ریاستی بیانیہ واضح، باوقار اور امن پر مبنی ہونا چاہیے۔ امریکہ کا ایران پر حملہ ایک وقتی برتری کی علامت ہو سکتا ہے، مگر اس کا طویل المدتی نتیجہ یقینی طور پر تباہ کن ہو سکتا ہے۔ دنیا کو ایک اور جنگ نہیں چاہیے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم غیر جانب داری کے پردے میں خاموش نہ رہیں بلکہ امن کے لیے آواز بنیں۔ ایک نیوکلیئر ملک ہونے کے ناتے، پاکستان کی یہ ذمہ داری بھی ہے اور عالمی سماج پر اس کا اخلاقی اثر بھی ہو سکتا ہے۔ مشرق وسطی کو امن چاہیے، بارود نہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here